عباسیہ کیمپس کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنانے کا معمہ

Sumera Malik, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

یاد رہے کہ بہاولپور میں اسلامیہ یونیورسٹی کا عباسیہ کیمپس علمی، تاریخی اور وہ یادگار مقام ہے. جہاں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے 2018 میں پنجاب کابینہ کا اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں پنجاب کے تمام وزراء اور سیکرٹریز اکٹھے ہوئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت کی کامیابیوں میں سے ایک نمایاں کامیابی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام ہے۔ اس کے ایک حصے کا باقاعدہ افتتاح ملتان میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کر چکے ہیں۔ جبکہ دوسرے حصے کا افتتاح بہاولپور میں جلد ہونے جا رہا ہے۔ جب 2019 میں وزیراعظم پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ بہاولپور میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لیے ایڈیشنل سیکرٹریز سولہ محکموں کے سیکرٹریز بھی ساتھ ہونگے۔ ملتان میں جنوبی پنجاب کا ایڈیشنل آئی جی بیٹھے گا۔ اس وقت بہاولپور میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری، کمشنر بہاولپور اور وائس چانسلر کے درمیان میٹنگ ہوئی کہ فوری طور پر سیکرٹریٹ کو بحال کرنے کے لیے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے عباسیہ کیمپس کو عارضی طور پر خالی کرا کے جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ بنا دیا جائے۔ جب سیکرٹریٹ کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو واپس کر دیا جائے گا۔ مگر اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ ممبران نے اس فیصلے کی تائید نہیں کی تھی۔ وائس چانسلر نے ممبران کے فیصلے کے متعلق حکام بالا کو آگاہ کر دیا۔ یوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے عباسیہ کیمپس کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنانے کا معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ اس موقع پر وائس چانسلر نے فراغ دلی کا مظاہرہ کیا اور اسلامیہ یونیورسٹی میں واقع وی سی ہاؤس اور ریسٹ ہاؤس کے چند کمرے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور مختلف سیکرٹریز کی رہائش گاہ کے لیے دینے پر آمادہ ہو گئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔
پھر صورت حال کچھ ایسی بدلی کہ پورے کا پورا سیکرٹریٹ آدھا آدھا ہو گیا۔ سولہ محکموں کے سیکرٹریز میں سے آدھے بہاولپور رہ گئے اور آدھے ملتان چلے گئے۔ اس سلسلے میں بہاولپور میں سرکٹ ہاؤس کو عارضی طور جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ بنا دیا گیا۔ جہاں کافی اخراجات کرنے کے بعد ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا آفس تیار کیا گیا۔ سرکٹ ہاؤس کے مختلف کمروں کو دفاتر میں تبدیل کر دیا گیا۔ بہاولپور کے مختلف سیکرٹریز کو ان کے محکموں میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے بے تحاشا پیسہ لگایا گیا ہے۔
یاد رہے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے عباسیہ 
کیمپس کی نا صرف ایک تاریخی حیثیت ہے بلکہ یہ اس مادر علمی کا لازمی جزو ہے۔ موجودہ عباسیہ کیمپس میں لا کی کلاسز ہو رہی ہیں۔ شعبہ امتحانات، اکاؤنٹس آفسز۔ دفتر رجسٹرار، یونیورسٹی کی بسوں کے لیے ٹرمینل، ہوسٹل اور وی سی آفس بھی موجود ہے۔ یاد رہے یہ اسلامیہ یونیورسٹی کا بنیادی کیمپس ہے پہلے اس کا نام جامعہ عباسیہ تھا۔ جس کا افتتاح 1950 میں پرنس صاحبزداہ محمد عباس خان عباسی نے کیا تھا۔ پھر 1975 میں اس جامعہ عباسیہ کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس تاریخی عمارت سے بہاولپور کے عوام کا جذباتی لگاؤ ہے۔ یہ جامعہ کی پہلی شناخت ہے جو شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ جس کے باعث علاقے کا اس مصروف چوراہے کا نام یونیورسٹی چوک سے منسوب ہو کر معروف ہو چکا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شہر میں تین کیمپس ہیں۔ پہلا یہی عباسیہ کیمپس ہے۔ اسی طرح بغداد الجدید اور ریلوے کیمپس ہیں۔ 2019 سے پہلے اسلامیہ یونیورسٹی میں تیرہ ہزار طلبا و طالبات تھے مگر دور اندیش وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کی خصوصی دلچسپی اور عملی کاوشوں سے اب چالیس ہزار سٹوڈنٹس تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اب احمد پور شرقیہ میں ایک نیا کیمپس چار ارب روپے کی لاگت سے بنایا جا رہا ہے۔ یہ یقیناًخوش آئند اقدام ہے۔
پچھلے چند دنوں سے یہ خبر گرم ہے کہ بہاولپور کے عباسیہ کیمپس کو جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ بنایا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں اولڈ کیمپس کے مختلف وزٹ بھی ہو چکے ہیں۔ لاہور گورنر ہاؤس میں اس سلسلے میں میٹنگ بھی ہو چکی ہے۔ جس میں کہہ دیا گیا ہے، اس کو خالی کرایا جائے تاکہ عارضی طور پر بہاولپور میں سیکرٹریٹ بنا کر افتتاح کیا جائے۔ یہ خبر اس وقت یہاں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں بہاولپور کے سول سوسائٹی کے لوگ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس ممکنہ اقدام کے حوالے سے احتجاج کرنے والے مظاہرین نے تنبیہ کی ہے کہ حکومت پنجاب یہ خیال اپنے دل سے نکال دے اور عباسیہ کیمپس کو سیکرٹریٹ بنانے کے بارے میں مت سوچے۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر اس ایشو کو جس طرح سے سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے کو جو غلط ہوا دی ہے۔ جس کا مقصد شہر میں سنسنی پھیلانا ہے۔ اس پر وسیم بریلوی کیا خوب کہتے ہیں کہ
وہ جھوٹ بول رہا تھا بہت سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے مٹھی بھر لوگوں نے اپنی سیاسی بھوک مٹانے کی خاطر اور خبروں میں آنے کے لئے میڈیا کے سامنے جھوٹ بولا اور دھرنے کی دھمکی دی، اگر حکومت نے ایسا کیا تو ہم ایسا نہیں ہونے دینگے۔ دوسرے علاقے سے آئے ہوئے سیاسی بے روزگار جمشید دستی نے میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کی تعلیم پالیسی پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ اگر ایسا ویسا ہوا تو میں دھرنا دونگا۔ میں ایک بات اپنے قارئین کو بتاتی چلوں کہ جمشید دستی نے مبینہ طور پر فراڈ اور جعلسازی کے بل بوتے پر اسلامیہ یونیورسٹی سے بی اے ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اس کی دھوکہ دہی کے حوالے سے پچھلے سال اسلامیہ یونیورسٹی میں منعقدہ ایک میٹنگ میں سینڈیکیٹ اس کی ڈگری کو جعلی قرار دے کر فوجداری مقدمہ درج کرنے کی تجویز دے چکی ہے۔ جس شخص کا کام علمی ادارے تک کو دھوکا دینا ہو وہ کیسے اس ادارے اور لوگوں کا بھلا سوچ سکتا ہے۔
میں خود اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی سینڈیکیٹ کی ممبر ہوں۔ جب یہ معاملہ میرے علم آیا تو میں نے ازخود بھی باوثوق ذرائع سے معاملہ کے حوالے سے جانکاری حاصل کی۔ کمشنر بہاولپور ڈویژن سے بھی میری ملاقات ہوئی ہے۔ جس کے بعد میں یہ کالم لکھ رہی ہوں۔ میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھتی ہوں۔ حکومت پنجاب کی ترجمان بھی ہوں لیکن میں خود کو پارٹی کی ایک کارکن سمجھتی ہوں۔ یہاں میں واضح کر دوں کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے عباسیہ کیمپس کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ نہیں بنایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی نوٹیفکیشن کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی تجویز زیر غور ہے۔ اگر میٹنگ کے اندر کوئی کمپس کے حوالے سے بات ہو سکتی ہے آپشن ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں جو بات کی گئی ہے وہ حرف آخر ہے۔ کمشنر بہاول پور ڈویژن کیپٹن محمد ظفر اقبال نے بھی اس بات کی تردید کی ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی عباسیہ کیمپس کی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے طور پر منتقلی کی کوئی تجویز زیر غور ہے۔ یہ بے پر کی سیاسی حریفوں نے اڑائی ہے۔ بلاوجہ اس کو معمہ بنا دیا گیا ہے۔ جو کہ سرا سر غلط ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو متنازع بنانے کے لئے من گھڑت اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ خالد خواجہ کہتے ہیں کہ
جھوٹ ہونٹوں پہ بلا خوف و خطر آتا ہے
مدتوں شہر میں رہ کر یہ ہنر آیا ہے