خبردا ر، ہشیا ر، کورونا کی چوتھی لہر

Dr Ibrahim Mughal, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

خدا خدا کر کے وطنِ عز یز میں کر ونا وائرس کی تیسری لہر دم تو ڑنے کو تھی کہ حکو متِ و قت اس کی چوتھی لہر سے خبردار کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر یقینی بنانے اور کورونا ویکسین لگوانے کی ضرور ت پر زور دیا ہے۔اس منحو س بیما ری نے کر ہِ ارض پر 2019ء کے او اخر میں جنم لینے کے بعد پچھلے سا ل کے شرو ع میں ہمارے ملک کا منہ دیکھا تھا۔ تب اس کی سرا سیمگی بجا طور پر بہت ز یا دہ تھیں اور عوام نے اسے سنجید ہ لیتے ہو ئے احتیا طی تد ا بیر اختیا ر کی تھیں۔ دوسری لہر، جو زیا دہ شدید نہیں تھی، کے بعد حا لیہ سا ل کے شروع میں تیسری لہر طا قتور طریقے سے حملہ آ ور ہو ئی تھی۔ تا ہم بروقت اقدا ما ت کی بنا ء پر ر خصتی کے عا لم میں تھی کہ اب چو تھی لہر کی آ مد کی گھنٹیا ں بجنے لگی ہیں۔اور پھر یہ کہ حالیہ دنوں کے دوران کیسز میں اضافہ ان خدشات کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 20 سے 29 جون کے دوران یومیہ کیسز کی تعداد میں بڑی کمی دیکھی گئی۔ 21 جون کو نئے کیسز کی تعداد 663 تھی، مگر یکم جولائی سے کیسز میں پھر اضافہ نوٹ کیا جائے لگا اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران یومیہ کیسز 1277 سے بڑھ کر 1789 تک پہنچ چکے ہیں۔ این سی او سی کے مطابق کورونا کے ایک بار پھر اضافے کے پیچھے عوامی سطح پر بے احتیاطی اور ویکسی نیشن کا کم رجحان ہے۔ یقینا یہی وجوہ ہوسکتی ہیں مگر اس میں قصور وار صرف عوام نہیں حکومت بھی ہے جو وبا کے خدشات کا علم ہونے کے باوجود پیشگی انتظامات کرنے میں ہر بار ناکام رہتی ہے۔ وبا کی پہلی تین لہروں کے دوران تو یہ مان لیا کہ اس وائرس کے خلاف یقینی حفاظتی بندوبست کوئی نہ تھا اور بچاؤ کے لیے صرف احتیاطی تدابیر پر انحصار تھا، پھر چوتھی لہر اگر آتی ہے تو یہ سراسر انتظامی اور فیصلہ سازی کی ناکامی کی وجہ سے ہوگی۔ کیونکہ نہ ویکسی نیشن کی مہم کو خاطرخواہ حد تک بڑھایا جاسکا اور نہ ہی احتیاطی تدابیر پر عمل یقینی بنایا جاسکا ہے۔ سرکاری اور غیرسرکاری شعبوں کے ملازمین، فیکٹری کارکن، ریستوران اور شادی ہالز سے منسلک لوگ، دکان دار اور بسوں کے ڈرائیور، کنڈکٹر وغیرہ کی ویکسی نیشن کے عمل میں بڑی کوتاہی برتی گئی۔ ان شعبوں سے منسلک افراد کی اب تک ویکسی نیشن مکمل ہوجانی چاہیے تھی مگر یہ کام ابھی پورا نہیں ہوسکا اور این سی او سی نے اس کے لیے مزید ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ اس دوران بھی نہ ہوسکا تو؟ ریل گاڑی، بس اور جہاز میں سفر کے لیے ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دینے کی ضرورت تھی تاکہ وبا کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملے، 
مگر یہ کام بھی نہیں ہوسکا۔ این سی او سی نے اب جا کر اندرون ملک فضائی سفر کے لیے ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ لازمی قرار دی ہے مگر اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ایک لمبی تاریخ دے دی ہے۔ فضائی سفر کے لیے ویکسی نیشن کی شرط یکم اگست سے نافذ ہوگی۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ بڑھتے ہوئے کیسز اور انتہائی خطرناک ڈیلٹا ویری اینٹ کی موجودگی کے آثار کے باوجود ویکسی نیشن کی لازمی شرط پر عمل درآمد کو اس قدر مؤخر کیا گیا ہے؟ اس دوران جو لوگ بغیر ویکسی نیشن کے اور خصوصی حفاظتی اقدامات کے بغیر سفر کریں، خاص طور پر عیدالاضحیٰ کے دنوں میں جو نقل و حرکت ہوگی، کیا یہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب نہیں بنے گی؟ آنے والے ہفتے کے دوران ملک میں بڑھتی ہوئی عوامی نقل و حرکت، خریداری اور بازاروں میں آمد و رفت کے ساتھ وبا کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ نہ صرف کورونا ویکسی نیشن مہم تیز کی جائے بلکہ عمومی حفاظتی اقدامات، جن کا ہمارے سماج میں کچھ زیادہ لحاظ نہیں کیا جارہا، پر سختی سے عمل یقینی بنایا جائے۔ حفاظتی اقدامات اپنی جگہ مگر وبا کے خلاف یقینی تحفظ ویکسین ہی سے ممکن ہے۔ جن ممالک میں عوام کی بڑی تعداد ویکسین لگواچکی ہے، وہاں نہ صرف ہر طرح کے شعبہ جات کھول دیئے گئے ہیں بلکہ حفاظتی پابندیاں بھی بڑی حد تک نرم کی جاچکی ہیں۔ مگر ہمارا شمار چونکہ ویکسی نیشن کے حساب سے ابھی پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں ابھی تک صرف 3.4 فیصد آبادی کو ویکسین کی ایک خوراک ملی اور صرف 6.1 فیصد کی مکمل ویکسی نیشن ہوئی ہے، اس لیے ہمارے لیے وبا کے خطرات ابھی ٹلے نہیں۔ ویکسی نیشن کی فہرست میں ہم سے روانڈا بہتر ہے۔ نیویارک ٹائمز کے کورونا ویکسین ٹریکر کے مطابق وہاں 1.3 فیصد آبادی کی جزوی اور دو فیصد کی مکمل ویکسی نیشن ہوچکی ہے جبکہ زمبابوے تو ہمارے مقابلے میں خاصا ترقی یافتہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں 6.5 فیصد آبادی کی جزوی اور چار فیصد کی مکمل ویکسی نیشن ہوچکی ہے۔ لیکن چارماہ میں ہماری ویکسی نیشن کی پیش رفت اگر یہ ہے تو آبادی کی اکثریت کو ویکسین کوریج دینے کے لیے ہمیں کئی سال درکار ہوں گے او ریہ پورا عرصہ کورونا با کے خطرات بھی منڈلاتے رہیں گے۔ جہاں تک کورونا وائرس کی بدلتی ہوئی صورتوں کا تعلق ہے تو مئی سے اکتوبر 2020ء کے دوران وائرس کے چار بڑے ویری اینٹس سامنے آچکے ہیں۔ الفا ویری اینٹ گزشتہ برس ستمبر میں برطانیہ میں سامنے آیا، بِیٹا اسی سال مئی میں جنوبی افریقہ میں، نومبر 2020ء میں برازیل میں سامنے آنے والی کورونا کی تبدیل شدہ صورت کو گیما کانام دیا گیا جبکہ ڈیلٹا گزشتہ برس اکتوبر میں بھارت میں دریافت ہوا۔ یہ سبھی وائرس تیز تر پھیلاؤ کی صلاحیت اور ہلاکت خیزی کی وجہ سے خصوصی طور پر تشوش ناک سمجھے جاتے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان دنوں ڈیلٹا ویری اینٹ کے کیسز بھی بڑھ رہے ہیں۔ وائرس کی تبدیلی کا یہ عمل آنے والے وقت میں بھی خدشات کا سبب بنا رہے ہیں اور جو ممالک اپنے عوام کی اکثریت کو ویکسین سے تحفظ فراہم نہیں کرتے، ان کے لیے یہ خدشہ بدستور موجود رہے گا۔ ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ حفاظتی اقدامات بہتر کرنے پر ضرور توجہ دی جائے مگر یاد رہے کہ ویکسین کی دریافت کے بعد روایتی حفاظتی اقدامات کے بجائے ویکسین وائرس کے خلاف پہلی او رمؤثر دفاعی لائن ہے۔ اس لیے روایتی اقدامات پر ضرور عمل کرایا جائے مگر یقینی تحفظ کے لیے کورونا ویکسی نیشن کی مہم کو تیز کیا جائے۔