سپریم کورٹ کا ریلوے کی مکمل اوور ہالنگ اور 76 ہزار  ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم

سپریم کورٹ کا ریلوے کی مکمل اوور ہالنگ اور 76 ہزار  ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم

اسلام آباد :سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریلوے کی مکمل اوور ہالنگ اور 76 ہزارریلوے ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قراردیا کہ  غیر ضروری اور نااہل ریلوے ملازمین کی چھانٹی کی جائے۔

ریلوے فوری طور پر اپنا اصلاحاتی عمل شروع کرے۔ پاکستان ریلوے میں نااہل افراد کی بھر مار ہے۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں۔ ریلوے کا سسٹم کرپٹ ہوچکا ہے اس میں یا تو جانیں جاتی ہیں یا پھر خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔

عدالت نے ایک ماہ میں ریلوے سے متعلق آپریشن اور ملازمین کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔پاکستان ریلوے کے ملازمین کی سروس مستقلی اور ریلوے میں بدانتظامی کے حوالہ سے  کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میںجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت سیکرٹری و  چیئرمین ریلوے حبیب الرحمان گیلانی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ریلوے کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان ریلوے میں نا اہل افراد کی بھرمار ہے، آئے روز ریلوے حادثات سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوتا ہے، ان حادثات کی نہ کوئی رپورٹ ہے اور نہ  ہی کوئی عملدرآمد کیا جاتا ہے ، ریلوے فوری طور پر اصلاحاتی عمل شروع کرے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ غیر ضروری اور نااہل ریلوے ملازمین کی چھانٹی کی جائے، ریلوے ملازمین خود اپنے محکمے کے ساتھ وفادار نہیں، سیکرٹری ریلوے کا بیان سنا جو اطمینان بخش نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریلوے میں نااہل افراد بھرے پڑے ہیں،  ریلوے ملازمین خود اپنے  محکمے کے ساتھ وفادار نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹی ایل اے ملازمین کے حوالہ سے بتایا جائے کہ ٹی  ایل اے میں کل کتنے ملازمین ہیں۔ اس پر سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ ٹی ایل اے میں کل 2712ملازمین ہیں اور ان ملازمین کو تنخواہیں لوکل گورنمٹ دیتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پھر یہ ملازمین ریلوے کے کیسے ہوئے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ کا کام یہاں سے فارغ کرتے ہیں، یہ بتائیں آپ کے دور میں ریلوے کے کتنے حادثے ہو چکے ہیں ، آپ سے ریلوے چل ہی نہیں رہی اور چھوڑ دیں ریلوے آج سے آپ سیکرٹری ریلوے نہیں ہیں، آپ کے انجن اور ڈبے چل ہی نہیں رہے، جو نقصان ہوا ہے بتائیں اس کی ذمہ داری کس کی ہے۔چیف جسٹس کے ریمارکس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ میں وفاقی ملازم ہوں کہیں اورچلا جائوں گا۔اس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کرسی میں بیٹھ کر کام کریں، فیلڈ پر جا کر اپنے ملازمین کو دیکھیں، ریلوے کا سسٹم کرپٹ ہوچکا ہے۔

سیکرٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ ریلوے کی جانب سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور اس سلسلہ میں تفصیلی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فیلڈ میں جا کر اپنے ملازمین کو دیکھیں ریلوے کا سسٹم کرپٹ ہو چکا ہے اور بہت زیادہ حادثات ہو رہے ہیں ، ٹرین یا جہاز کا حادثہ کوئی مذاق نہیں ہوتا ، یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الا حسن کا کہنا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں، حکومت آپ کو آئے روز 50ملین گرانٹ دیتی ہے۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے سے استفسار کیا کہ ریلوے میں کل کتنے ملازمین ہیں۔ اس پر سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ ریلوے میں کل76ہزار ملازمین ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ142 مسافر اور120گڈز ٹرینیں ہیں۔ اس وقت کوروناوائرس کی وجہ سے 43ٹرینین فعال ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے76 ہزار ملازمین رکھے ہیں، ریلوے کا نظام چلنانے کے لئے  تو 10ہزار کا فی ہیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ساری فیکٹریاں اور کام بند پڑا ہوا ہے تو یہ ملازمین کیا کر رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الا حسن کا کہنا تھا کہ ریلوے کے کمپیوٹرز پر مٹی پڑی ہوئی ہے۔ میڈیا میں آرہا ہے کہ وزیر اعظم ریلوے میں کوئی اصلاحات کر رہے ہیں۔ اس پر سیکرٹری ریلوے کا کہنا تھا کہ چھ نکات پر اصلاحات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 76ہزار ملازمین کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے تقریر نہ کریں ہمیں سب پتا ہے ریلوے میں کیا ہورہا ہے۔ ریلوے میں یاتو جانیں جاتی ہیں یا پھر خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ عدالت نے ایک ماہ میں ریلوے سے متعلق آپریشن اور ملازمین کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔