ٹریلر چل رہا ہے۔۔۔!

ٹریلر چل رہا ہے۔۔۔!

ہالی ووڈ کی فلم دا ممّی ، جیواسٹارم، کنگ آرتھر، ایموجی پچھلے سال کی فلاپ فلمیں ہیں۔ لیکن پچھلے سال کے آغاز میں ان کا جو دھوم دھڑکا تھا کہ خدا کی پناہ۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز کیے ہوئے ٹریلر۔ ایک کے بعد ایک۔ میڈیا میں ایک ہیجان برپا تھا۔
دراصل ٹریلر کا مقصد ہی ہیجان برپا کرنا ہے، یعنی فلم آنے سے پہلے اس کی اتنی مقبولیت ہوجائے کہ ہر کوئی تجسس سے لبریز ہو۔ اور شائقین فلم کے آنے کے انتظار میں اس کی کہانی کے بارے میں اپنے اپنے اندازے بھی قائم کرچکے ہوں۔ سوشل میڈیا نے فلمی دنیا کے اس حربے کے لیے اور بھی آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ ٹریلر ہر فلم بین کی رسائی میں آچکا۔ ٹریلر شوبز کے بعد سیاست میں بھی متعارف ہوچکے۔ کسی بڑے واقعہ یا اہم موقعہ سے پہلے تیار شدہ منصوبے کا خاکہ دینا اب عام ہوچکا۔ دکھانے والے اپنی کچھ ”نشانیاں“ دکھاتے ہیں۔
سینیٹ الیکشن بھی ایک ٹریلر ہے۔ پکچر تو ابھی چلنی ہے۔ شائقین کے لیے کھلا اعلان ہے۔ ایسی ہوگی پکچر، یعنی اگلے عام انتخابات، ان خاص انتخابات کے طرز پر کرائے جاسکتے ہیںَ یاد نہیں! سینیٹ الیکشن سے پہلے کیا بساط بچھی تھی۔۔؟ سیاست کے کھلاڑی آصف علی زرداری کو ایک صوبہ پلیٹ میں رکھ کر دے دیا گیا۔ انہوں نے نا صرف اپنوں بلکہ غیروں پر بھی پھر اپنی دھاک بٹھائی۔ ایک چلتی حکومت کو چلتا کیا۔ ایک انتہائی غیر مقبول رکن اسمبلی کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔ یہ سب کرکے دینے والے ہوتے ہیں ”کنگ میکر“ ۔
کنگ میکرز نے بلوچستان میں مٹی کے باوے میں جان ڈال دی۔ اور اس کے نتیجے میں سینیٹ میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والوں کا خواب بھی چکنا چور کردیا گیاجس کے ٹوٹنے کی آوازیں بہت دیر تک کانوں میں سنائی دیں گی۔ کہتے ہیں ”حکومت بڑی چیز ہوتی ہے“، خاک چیز ہوتی ہے ، وہ پڑی رہ گئی حکومت اور اوپر سے وفاقی حکومت بھی۔ کنگ میکرز نے جو چاہا کردکھایا، نہ کوئی روک سکتا تھا نہ روک سکا۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟
خیبرپختونخوا میں 7 ارکان والوں کو کامیابی دلوانا بھی تو کنگ میکرز کا ہی کارنامہ ہے! ورنہ صرف چمک اتنا بڑا کام نہیں کرپا رہی تھی، ساتھ دھمک بھی تھی۔ پنجاب میں دھمک تو اب نئی بات رہی نہیں۔ حلقہ 120 لاہور کے انتخابات کے دوران دھمک دور دور تک سنائی دیتی رہی۔
سینیٹ الیکشن کے نتائج بڑی اسکرین کا ٹریلر ہے۔ اور چھوٹی اسکرین کا ٹیزر۔ ”ٹیزر“ بھی میڈیا کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ ویسے تو لفظی معنوں میں اسے چُبھن کہا جائے گا لیکن اصطلاحی معنی تجسس ابھارنے کے ہیں جس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے ۔ وہ ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ عوام الناس کو پیغام ہے کہ کنگ میکرز چاہیں گے تو کسی کو واضح اکثریت نہ لینے دیں۔ چوں چوں کا مربہ بناڈالیں۔ پھر بیٹھے ترتیب دیتے رہنا۔ ناکامی اور خرابی کا الزام آئے گا تو جگادری سیاست دانوں پر۔ چاہیں تو ن لیگ کی بھاری اکثریت کو کم کردیں۔ یہی کچھ ہونے جارہا ہے بڑے انتخابات میں۔ پیپلز پارٹی جو سندھ سے باہر کہیں نہیں۔ اسے جہاں چاہے لے آئیں۔ اور ن لیگ جہاں ہے وہاں سے نیچے لے آئیں۔ خریدنے اور بِک جانے کا الزام بھی دامن پر نہ آپائے۔ آپس میں ٹکراتے رہیں۔ حکومت کون بنائے گا؟ کوئی ایک نہیں، سب کو حصے بخرے بانٹ دیں۔ کون ہوگا پھر چیلنج کرنے والا۔ چھوٹے چھوٹے ٹولے ہوں گے اور ان کی لگامیں کنگ میکرز کے ہاتھوں میں ۔
ٹیزر ہے ان کے لئے جن کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے۔ جو دھواں دار تقریریں کرتے نہیں تھکتے۔ جو خود کو انقلابی منوانے پر بضد ہیں۔ ہوا کے اُلٹے رخ پر اُڑنے کے خواہش مندوں کے لیے مسلسل ایک چبھن۔
ہر کوئی اندازہ لگانے میں مصروف ہے کہ کیا کیا جائے؟ جمہوری بنیں، انقلابی بنیں یا پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ پیغام تو واضح ہے کہ مو ¿خر الذکر آپشن کو ہی اپنایا جائے، کس آپشن پر جانا ہے اس کا فیصلہ ہر کوئی اپنے حالات کے مطابق کرے گا۔ کھل کر بات کی جائے تو۔
عمران خان ایک طرف نوازشریف اور ان کی بیٹی کی بڑھتی مقبولیت سے خائف ہیں اور دوسری جانب ان کے لیے ٹیزر پیغام ہے۔۔۔ وہ خود کو مذہبی قرار دے چکے۔ بدعنوانی کے خلاف سب سے بڑے علمبردار بنے بیٹھے ہیں۔ شریفوں کی حکمرانی پر نشتر چلا چکے۔ ایسی گورننس کو ڈھونگ، فراڈ کہہ چکے۔ عوامی رابطوں کا ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ دور دور تک ٹوٹنے کا امکان نظر نہیں آتا تھا۔ نوازشریف کو عرش سے فرش پر لے آئے لیکن کیا کیا جائے۔ عوامی مقبولیت میں پھر بھی نوازشریف آگے ہیں۔ ایمپائرز کے تمام احکام بجا لارہے ہیں۔۔ اب تو کنگ میکرز ایک بیوروکریٹ کی گرفتاری پر بھی پریس کانفرنس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کون سی پالیسی اپنائی جائے؟ اسٹبلشمنٹ کا دفاع مقبولیت میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔۔۔ کپتان سوچ سوچ کر ہلکان۔
اِدھر سیاست کے کھلاڑی آصف علی زرداری کو اپنے کیمپ میں بغاوت کا سامنا ہے لیکن اس بغاوت کی زیادہ پرواہ نہیں۔ ان کا مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر سیاست میں کچھ مل بھی گیا اور دل سے قبول نہ کیا گیا۔بلاول کو سامنے لاکر زرداری مائنس کرنے کا کہہ دیا گیا۔۔۔ تو کیا ہوگا؟ آنکھیں بند کرکے اعتبار کیسے کرلیں؟ سندھ میں حکومت مل جائے گی، وفاق میں تُرپ کا پتہ بھی۔۔۔ لیکن اگر ماضی کے ”کارناموں“ کو تحفظ نہ ملا۔ سب کچھ کے باوجود فرنٹ مین خطرے میں رہے، تو کیا ہوگا۔۔۔؟ اس وقت تک تو کنگ میکرز جو چاہتے ہیں کرا رہے ہیں۔۔ آخر میں ہاتھ ہی نہ مَلتے رہ جائیں کہیں۔۔۔؟ ایک زرداری پر، یہ غم بھاری۔
ن لیگ والوں میں مِلا جُلا رجحان ہے۔۔۔ باپ بیٹی کشتیاں جلا چکے۔ چچا جان کچھ جھنجھلاہٹ میں ہیں۔ بار بار بیمار ہوکر شاید روز کئی کئی بار سوچتے ہیں، کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ بڑے بھائی اور بھتیجی کی پالیسی عوامی ہے اور اس کے الٹ چلنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ جہاں تک پارٹی کا معاملہ ہے۔ شہباز شریف کے صدر بننے کے بعد سے کچھ حوصلہ آیا ہے ورنہ تو لوگ دل تھام کر بیٹھے تھے۔
اس سب کچھ کے باوجود ۔۔۔ تمام چالوں کے اوپر ایک چال۔۔۔ قسمت کی چال، قدرت یا اوپر والے کی چال۔۔ جو چاہے کہہ لیجئے۔ وقت کا پہیہ بھی کہہ سکتے ہیں اس کا رُخ اور انداز ہمیشہ اپنا ہی رہا ہے۔۔۔ وقت کا پہیہ پتہ نہیں کس طرف چل پڑے۔۔۔ ٹیزر اور ٹریلر ہی کامیابی کی ضمانت ہوتے تو بڑی بڑی فلمیں فلاپ نہ ہوتیں۔ بڑے بڑے پروگرام چلنے کے بعد بند نہ ہوتے۔ بڑے بڑے ٹی وی چینلز نے سوچ بچار، منصوبہ بندی، تحقیق کے بعد اعلیٰ پروگرام ترتیب دئیے۔ ان کے ٹیزر بھی ایسے چلائے کہ ایک زمانہ انتظار میں رہا۔ اور پھر وہی پروگرام بند کرنا پڑے۔ دیکھتے ہیں۔۔۔ سینیٹ الیکشن اور اس جیسے دیگر ٹیزر کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کے نتائج ملیں گے یا پھر پروگرام چلنے سے پہلے ہی بند ہوجائیں گے۔
بڑی فلم چلے گی یا ڈبہ ہوگی۔ یہ فیصلہ کنگ میکرز کے ہاتھوں میں نہیں۔ یہ فیصلے اوپر، بہت اوپر ہوتے ہیں۔ اور اب بھی وہیں سے ہوں گے۔ اسکرین آن ہے۔ اور شائقین بے تاب۔

میاں طاہر کالم نگار اور بلاگر ہیں ،ؐمختلف انداز میں لکھنا ان کی خوبی ہے ۔

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)