پاکستان مذاکرات کیلئے تیار ہے، بھارت سازگار ماحول بنائے: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی  

پاکستان مذاکرات کیلئے تیار ہے، بھارت سازگار ماحول بنائے: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی  

اسلام آباد: وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہے، بھارت اس کے لئے کشمیر یوں کے تشخص کو مٹانے کے اقدامات واپس لے کر سازگار ماحول بنائے، وزیر اعظم کا سعودی عرب کا دورہ غیرمعمولی نوعیت کا تھا، پاکستان ایک خودمختار،پرامن اور مستحکم افغانستان کا خواہش مند ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہے، مسئلہ فلسطین پر امت مسلمہ کو متحد ہونا ہوگا،ںکشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اس پر کوئی ابہام نہیں پاکستان اپنے موقف پر قائم ہے۔

وزارتِ خارجہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ قبلہ ء اول مسجد اقصٰی میں جو بربریت ہو رہی ہے اس پر ہمیں گہری تشویش ہے، وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب میں سیکرٹری جنرل او آئی سی سے ملاقات میں اس حوالے سے پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ترک وزیر خارجہ سعودی عرب میں سعودی حکام کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کریں گے، فلسطین کے معاملے پر پاکستان کا ترکی کی طرح ٹھوس موقف ہے، ترک وزیر خارجہ او آئی سی کے وزراتی سطح کےہنگامی اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے بات کریں گے، ستائسویں کی رات نہتے لوگوں کو اقصٰی مسجد میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا،ان پر گرینڈوں سے اور ربر بلٹس سے حملہ کیا گیا،پاکستان اس بربریت کی شدید مذمت کرتا ہے، پاکستان فلسطینیوں سے مکمل یک جہتی کا اظہار کرتا ہے، نہتے شہریوں پر حملے کی اجازت کون سا قانون دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری گزشتہ رات وزیر اعظم عمران خان سے بھی بات ہوئی اور انہیں بھی میں نے اعتماد میں لیا،ہو سکتا ہے کہ وہ وہ بھی اس پر بات کریں۔جرمنی ایران، اردن اور بہت سے ممالک نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان حالات میں معمول پر لانے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی ضرورت ہے،عالمی برادری الشیخ الجراہ کے واقعات سے غافل نہیں رہ سکتی،ہم وہاں تصادم کے حق میں نہیں ہیں لیکن نہتے لوگوں کو کسی صورت نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اس پر پوزیشن بڑی واضح ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب غیر معمولی نوعیت کا تھا،ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خود وزیر اعظم عمران خان کو خوش آمدید کہنے کیلئے ایرپورٹ تشریف لائے،ہمارے سعودی عرب کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں جنہیں اس دورے نے نئی جہت دی،پاکستان بہت سے معاملات پر سرخرو دکھائی دیتا ہے،اس دورے کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ایک ادارہ جاتی میکنزم تشکیل پایا ہے،

انہوں نے کہا کہ اس ادارہ جاتی میکنزم کے خدوخال ہم نے طے کر لیے ہیں،اس کے تین ستون ہیں ان میں دفاع وسلامتی،معیشت اور ثقافت ومثبت ساکھ میں کون قیادت کرے گا یہ طے ہوا۔بیروزگاری ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے،سعودی ولی عہد کے وژن 2030 کے مطابق انہیں مزید ورک فورس کی ضرورت ہو گی-اگلے چند سالوں میں انہیں 10 ملین افرادی قوت درکار ہو گی ا ور وہ پاکستان سے خاصی تعداد لینے کے خواہشمند ہیں،اس کے لئے ہمیں منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ صرف مزدور طبقہ ہی نہیں بلکہ اہم ملازمتوں کا حصول بھی ممکن ہو،سعودی عرب کے دورہ کے دوران پانچ ایم او یووز پر دستخط ہوئے،دو معاہدے وزارتِ داخلہ سے متعلقہ ہیں۔ہائیڈرو پاور،انفراسٹرکچر اورمتبادل توانائی کیلئے ہمیں سعودی فنڈ سے 500 ملین ڈالر کی رقم فراہم کریگا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس دورے میں معاشرتی شراکت داری بڑھانے پر توجہ دی گئی ہے۔ سرمایہ کاری اور ملازمت کے مواقعوں پر بات چیت ہوئی۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی اعلی قیادت سے ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف اور میں خود شریک تھا،اس اجلاس میں کشمیر کے معاملے پر ہم نے کھل کر اپنا موقف پیش کیا،صورت حال کو خراب ہندوستان نے کیا ہے،اگر ہندوستان ان اقدامات پر نظرثانی کرتا ہے تو ہم بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میری سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود سے ملاقات ہوئی جو کافی سودمند رہی،عید الفطر کے بعد سعودی حکام کا ایک وفد پاکستان آئے گا اور ہم باہمی معاملات کو آگے بڑھائیں گے،سعودی وزیر خارجہ تشریف لائیں گے اور ہم سعودی ولی عہد کے اگلے دورہ پاکستان کے امور طے کریں گے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے افغانستان کا دورہ کیا،ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں،ہم چاہتے تھے کہ افغانستان میں امن اور مفاہمت کا عمل آگے بڑھے اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان عید پر سیز فائر کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

کابل حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ،ہم امن ،استحکام اور افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتے ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم افغانوں کے باہمی مذاکرات سے افعان مسئلے کے سیاسی حل کے خواہشمند ہیں، انخلاء کا عمل شروع ہو چکا ہے،افغانستان میں قیام امن کی ذمہ داری افغان قیادت پر ہے،گفت وشنید سے معاملات طے کرنا طالبان اور حکومت دونوں کے اپنے مفاد میں ہے،افغانستان میں قیام امن سے سب سے زیادہ پاکستان اور پھر پورا خطہ مستفید ہو گا۔ پاکستان خوشحال اور خودمختار افغانستان دیکھنا چاہتا ہے،امید ہے افغان عمل عمل آگے بڑھے گا۔انہوں نے کہا کہ گوادر مختصر تجارتی راستہ فراہم کرتا ہے،ہماری جغرافیائی اقتصادی ترجیح کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھی یہ انتہائی اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کو سعودی عرب میں سفارت خانے کے حوالے سے کچھ شکایات موصول ہوئیں جس پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے جس طرح اس کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کی گئی اس پر تحفظات ہیں،اس میڈیا تشہیر کا فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور پاکستانی سفراء کو تنقید کا نشانہ بنایا،سفارتخانوں میں قونصلر سروسز سے وابستہ کچھ افسران ایسے بھی تعینات ہوتے ہیں جو براہ راست وزارت خارجہ کے ماتحت نہیں ہوتے،ہم اس حوالے سے جامع تحقیقات بھی کر رہے ہیں،کارکردگی کی بہتری کیلئے جامع تجاویز بھی مرتب کر رہے ہیں جنہیں ہم وزیر اعظم کی خدمت میں جلد پیش کریں گے، پاکستان اپنے مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کیلئے پرعزم ہے،پاکستان، افغانستان کی ترقی کے ساتھ ہے پاکستان کسی فریق کے ساتھ نہیں۔انہوں نے کہا کہ افعان حکومت اور طالبان کے مابین جنگ بندی معاہدہ خوش آئند ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں،ہم امن میں شراکت داری کے لیے پرعزم ہیں،سب سے زیادہ ذمہ داری افغانوں پر عائد ہوتی ہے،دوست ممالک کا کردارہمیشہ مصالحانہ ہوتا ہے،پاکستان میں کوئی بیس منتقل نہیں ہو رہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ طالبان کو بھی مذاکرات کی راہ اپنانے کی ترغیب دی ہے اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل کی بات کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ نے اس کا نتیجہ دوحہ میں امن معاہدے کی صورت میں دیکھا،اگر عید کے بعد استنبول کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے تو چیزیں مزید بہتری کی جانب جائیں گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بدقستی سے اچھی خبر آئے تو اسے خبر نہیں سمجھا جاتا،بھارت میں سات کلو یورینیم کا پکڑا جانا بہت بڑی خبر تھی اس کی تحقیقات اہم ہیں،اگر ایسی خبر پاکستان کے بارے میں بھارتی میڈیا کے ہاتھ لگتی تو وہ اسے اپنے زاویے سے اٹھاتا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب حرمین شریفین کا کسٹوڈین ہے اس کا او آئی سی بنانے میں کلیدی کردار ہے،انسے قائدانہ کردار کا تقاضا کرتے ہیں،ایران سے تعلقات میں ثالثی کی پیش کش کی ہے اسکی شروعات ہوئی ہیں،فاصلے ختم کرنے میں وقت لگے گا،ترک وزیر خارجہ جدہ میں ہیں،قطر کے امیر سعودی عرب جا رہے ہیں،جی سی سی میں کھینچا تانی کم ہوئی ہے،یہ مشرق وسطی میں نئی ڈویلپمنٹ ہے اس حواے سے سعودی عرب کا دورہ اہم ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ سیاست سے بالاتر ہے،اس پرپاکستان کا موقف انتہائی ٹھوس اور واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے،دورہ سعودی عرب کے دوران کشمیر پر بات ہوئی،ہم نے واضح نکتہ نظر بیان کیا کہ کیسے 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدام سے حالات خراب ہوئے،اس کے جائزہ کی ضرورت ہے،ہندوستان کے اندر سے ایک بڑا طبقہ نریندر مودی کی اس کشمیر پالیسی کے خلاف ہے،اس پر کھل کر بات ہوئی،ہماری حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ بھارت امن کی جانب ایک قدم بڑھائے ہم دو قدم بڑھانے کو تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو علم ہے کہ اس سے کون کترا رہا ہے،بھارت اس پر نظرثانی کرے تو پاکستان ںات چیت کے لئے تیار ہے،ہندوستان کے آرٹیکل 370 میں کشمیریوں کو ایک سپیشل سٹیٹس دیا گیا جب اسے ختم کیا گیا تو تمام کشمیریوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا اور ہم نے بھی کیا،5 اگست 2019 کے بعد ہماری کاوشوں سے تین دفعہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا گیا،35 اے کے خاتمے کے ذریعے ہندوستان آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنا چاہتا ہے،وہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل رہے ہیں ہمیں اس پر شدید تشویش ہے،کشمیر، بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے پھر یہ ہندوستان کیلئے اندرونی مسئلہ کیسے ہو سکتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ فی الحال ہندوستان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو رہی۔لیکن اگر ہندوستان مذاکرات چاہتا ہے تو انہیں کشمیریوں پر جاری مظالم کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا،اگر بھارت کشمیریوں کا تشخص بحال کر دے تو یہ ساز گار موحول کے قیام کی جانب قدم ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے دفاع کا علم ہے اور وہ اس سے غافل نہیں رہ سکتا،سفارت کاری ایک مسلسل عمل ہے کوئی بٹن نہیں کہ اسے دبا کر ایک دم سب مسائل حل ہوجائیں،انہوں نے کہا کہ ایسے قیدی جو اپنی سزا مکمل کرچکے ہیں اور جرمانہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ان کی رہائی پر بات ہوئی،منشیات اور سنگین نوعیت کے قیدیوں بارے بات نہیں ہوئی،پاکستان بات چیت میں کوئی قیمت نہیں چکا رہا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے پاکستانیوں کی واپسی پر بھی بات ہوئی اب سعودی عرب میں ان کے آسانیاں پیدا ہوئی ہیں،اصلاحات کی گئی ہیں اب ایک کفیل سے دوسرے کے پاس جانا اور اقامہ تبدیل کرنے کی سہولت دی گئی ہے،نرمیوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان جو کردار ادا کر سکتا ہے کرے گا،فیصلہ افغانیوں نے کرنا ہے آگ ان کے ملک میں لگی ہوئی ہے،یہ آگ بجانے والے گھر کے لوگ ہی ہوں گے۔ترکی اور دوحہ بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان کو 35 اے سے بھارت کی جانب سے غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل کی سہولت دینے پر تشویش ہے بھارت اس عمل سے ڈیموگرافی تبدیل کرنا چاہتا ہے،تاکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے،اس پر پاکستان کو تشویش ہے،اس کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں،اس کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں،پاکستان اپنے موقف پرقائم ہے،اس میں کوئی ابہام نہیں،اس پر کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔بھارت سے کوئی باقاعدہ بات چیت نہیں ہورہی اس کے لئے اقدامات بھارت کو اٹھانے ہیں،وہ اگر بات چیت چاہتا ہے تو کشمیر میں اپنی پالیسی پر اسے نظرثانی کرنا ہوگی،محصور کشمیریوں کو ریلیف دینا ہوگا،ان کے تشخص کو مٹانے کو اقدامات واپس لئے جائیں تو ہی بات چیت کے لئے سازگار ماحول بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان کا اچھا دوست ملک ہے وہ بھارت کے ساتھ کاروبار کررہا ہے بھارت اس کا تیل کا خریدار ہے،وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سیز فائر کو اہم پیش رفت سمجھتا ہے،بھارت کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کی جارہی تھی پاکستان تو کھل کر اس کا جواب بھی نہیں دے سکتا کیونکہ دوسری جانب بھی کشمیری ہیں جو پاکستان کے خیرخواہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں ترقی کے لئے غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے،خطے کے ممالک میں تجارت کا حجم بہت کم ہے،سارک کو فعال کرنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری ضروری ہے،پاکستان ہمیشہ مذاکرات کے لئے تیار ہے بھارت ہی اس سے کتراتا ہے،بھارت سازگار ماحول بنایے پاکستان بات چیت کے لئے اب بھی تیار ہے،ہمنے کبھی تیسرے فریق کی سہولت کاری سے انکار نہیں کیا۔