بہروپ میں فساد

بہروپ میں فساد

انگشت ِ بدنداں ہوں کہ بہروپ میں کیا روپ بھر لیا ہے گویا
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
کیا یہ فتنہ و فساد نہیں کہ دعویٰ تو حق و صداقت کا کرو، مگر اسکے پسِ پردہ ’میں نہ مانوں ‘ کی رٹ لگا کر پورے ملک کو آتش و آہن کی اْس راستے کی جانب دھکیل دو جس کا انجام تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہوتا ہے ، کھیل میں کبھی آپ فتح یاب ہوتے ہیں تو کبھی آپکو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن کیا شکست پر یہ کہہ کر پورا میدان ہی تباہ و برباد کردیا جائے کہ ’اگر میں نہیں تو کوئی بھی نہیں‘۔کیا اس امر پر کفِ افسوس نہیں ملنا چاہیے کہ پاکستان کے صف ِ اول کی سیاسی قیادت اصلاح کی آڑ میں فساد پھیلا نے کی تگ و دود کرتی نظر آتی ہے؟ کیا یہ مناسب ہے کہ ایک ایسا سیاستدان جسے ملک کا اقتدار نصیب ہو لیکن وہ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد علی ا لا علان یہ دھمکیاں دیتے پھرے کہ اگر مجھے اقتدار میں نہ لایا گیا تو ملک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ ورطہ حیرت میں ہوں کہ بھلا ایک سیاسی لیڈر شپ کے ذہن میں معصوم لوگوں کا خون بہانے کی باتیں آ کیسے سکتی ہیں ؟ کبھی مذہب کے نام پرتو کبھی ملک کی خود مختاری کے نام پر، کبھی قوم کے نام پر تو کبھی رنگ و نسل کے نام پر،اور کبھی زبان کے نام پر کیا قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کا عمل درست اقدام ہے ؟ کیا اسکے لیے بیک وقت امریکہ اور مذہب کا کارڈ استعمال کرنا دانشمندی ہے ؟ کیا عوام کو اداروں کے ساتھ لڑانے اور عوام کو عوام سے لڑانے کی باتیں کرنے کو ٹھیک سمجھا جاسکتا ہے؟ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک کے مشرق و مغرب میں موجود دشمن پاکستان پر میلی آنکھیں گاڑھے بیٹھے ہوں۔ اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر میں پوری مغربی سرحد گرم ہے۔پھر بھلا ایسے عناصر کو جو چاہے سیاسی لبادہ ہی کیوں نہ اوڑھے ہوں اورانکی نظر میں زندگی کی کوئی قدرو قیمت نہ ہو ، انہیں بھلا فساد کی ایک نئی دکان کھولنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے ؟
یہ بھلا کسے معلوم نہیں کہ پاکستان دْشمن قوتیں ملک کو لیبیا اور شام بنانا چاہتی ہیں۔ ان قوتوں نے پاکستان کو ’ففتھ جنریشن وار فئیر‘ میں دھکیلنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ ایسے میں ملک میں ایسے عناصر کی بھی کوئی کمی نہیں جو فساد کا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ ایسا کیوں نہ کریں؟ یہ دولت کمانے کا، شہرت حاصل کرنے کا، اور کسی گروہ کا بڑا بننے کا آسان ترین نسخہ و طریقہ ہے. اور جو لوگ محض اقتدار و شہرت کے لئے فساد پھیلا تے ہیں، درحقیقت وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن میں نہ تو کوئی اچھائی ہے اور نہ ہی کوئی بھلائی، مگر یہ دوسروں کو برا دکھا کر، دوسروں پہ انگلی اٹھا کے خود اچھا دکھا ناچاہتے ہیں۔ یہ خود بڑی پاکبازی اور لوگوں کی اصلاح کی بات کرتے ہیں اور سادہ لوح، بھولے انسانوں کو اپنے جال میں پھنساکر لوگوں کو آپس میں لڑاتے ہیں، نفرتیں پھیلاتے ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں اور فساد مچاتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے دْرست طور پر ان سیاسی انتہا پسندوں کی نشاندھی کی ہے جو ملک میں انارکی پھیلانے چاہتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا دْرست ہے کہ ایسے عناصر سیاست کے لبادے میں اداروں کو بدنام اور انہیں عوام سے لڑانے چاہتے ہیں۔ اگر انہیں آئین و قانون کے تحت روکا نہ گیا تو ملک انتشار اور انارکی کی جانب سے تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔فوج کے شعبہ آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی یہ درست طور پر واضح کیا جاچکا ہے فوج اور اسکی لیڈر شپ کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان بذات خود ملک کے ایک نامور کھلاڑی رہ چکے ہیں انکا یہ دعویٰ ہے کہ ان سے زیادہ کوئی بھی سپورٹس میں شپ نہیں جانتا۔ اگر واقعی انکا یہ دعویٰ دْرست ہوتا تو وہ جانتے کہ جمہوریت کے اندر آئین و قانون کے تحت آپ جب تک اکثریت رکھتے ہیں وزیر اعظم رہتے ہیں اور جیسے ہی آپ پارلیمنٹ میں یہ اکثریت کھو دیتے ہیں تو پھر آپ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتے اور دوسروں کو حکومت کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔اگر آپ اسمبلی میں رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تو ایک مضبوط اپوزیشن ہونے کی بدولت آپ حکومت کو اسکی غلط پالیسیوں کی صورت میں ناکوں چنے چبو ا سکتے تھے۔ لیکن آپ نے اس کے برعکس انتشار کا راستہ منتخب کیا ہے جو یقینا آپ کی سیاست کو تیزی سے ایک عمیق گڑھے کی جانب لیکر جارہا ہے۔ ملک میں جلد الیکشن کا نعرہ تو درحقیقت مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف کا تھا تاہم جب تک آپ اقتدار میں تھے آپ اسے درخور اعتنا ء نہیں سمجھ رہے تھے۔خود نمائی و خود ستائش کی انسانی کمزوری میں مبتلا ہوکرجہاں آپ نے اپنی اتحادی جماعتوں کو نظر انداز کیا تو وہاں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے زِیرک ، معاملہ فہم اور وضع دار ساتھیوں کو بھی دیوار سے لگا کر رکھا۔آپ کے مخالف تو آپ سے ناراض ہیں ہی ، آپ نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں جہاں عوام کی چیخیں نکلوائیں ، وہاں اپنے دوستوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کیا رکھا۔ یہ جہانگیر ترین اور علیم خان ہی تھے جن کے پیسے اور مسلسل محنت کی بدولت آپکو اقتدار نصیب ہوا لیکن آپ انکے شکر گزار ہونے کی بجائے فرح گوگی کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے چینی کی برآمد پرمکمل پابندی ، لوڈشیڈنگ اور آٹا و اشیائے خورونوش کی قلت اور قیمتیں کم کرنے کے لئے اْٹھائے جانے والے اقدام بروقت اور درست ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے پارٹی کا ہنگامی اجلاس لندن میں طلب کرلیا۔ذرائع کے مطابق نوازشریف کو بعض معاملات پر تحفظات ہیں اس لیے (ن) لیگ کو ئی بڑا فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اس اجلاس میں شرکت کرینگے۔ انکے ہمراہ دیگر رفقاء کے علاوہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب بھی ہونگی۔ پنجاب کے اندر سیاسی رسہ کشی اپنے عروج پر ہے۔وفاقی کابینہ نے اگرچہ گورنر پنجاب کو ہٹا دیا ہے تاہم وہ اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے ساتھ ملکر میاں حمزہ شہباز شریف کی ادھوری حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے ہنوز کمر بستہ ہیں۔وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اب تک جس انداز میں اپنے سیاسی پتے کھیلے ہیں وہ اس امر کی نشاندھی کرتے ہیں کہ وہ اس کھیل کو خوب کھیلیں گے۔وہ اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی صلاحیت سے خوب مالا مال نظر آتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں