ہم ثابت کرتے رہتے ہیں کہ"ہم تقسیم ہیں"

ہم ثابت کرتے رہتے ہیں کہ

       یقیناً ہر پاکستانی کو یہ جان کر دکھ ہوگا گوکہ وہ امر سے بخوبی واقف ہے کہ ہم پاکستانی مفاد پرست ٹولیوں کی صورت میں سر زمین پاکستان پر رہائش پذیر ہیں، ٹولیوں سے مراد گروہ کہ ہیں۔ دنیا مکمل طور پر مادہ پروستوں کے اختیار میں ہے۔ ہر فرد ہر کام کے پیچھے اپنے فائدے کا متلاشی نظر دیکھائی دیتا ہے۔ ہمیں مخصوص مفادات ایک جگہ اکھٹا کردیتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی خاص مفاد کے مختلف گروہ بن جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے طریقے سے ایک ہی مفاد کی لڑائی لڑنے لگتے ہیں۔ یہ گروہ یا ٹولیاں کیسے ترتیب پاتے ہیں یا تشکیل پاتے ہیں، ہمارے معاشرے میں مختلف مذاہب اور زبانیں بولنے والے افراد رہتے ہیں۔ دورِ حاضر میں جب آپ مکان تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو دیگر شرائط کے ساتھ یہ بھی مطلوب ہوتا ہے کہ علاقہ کی اکثریت اپنی زبان بولنے والوں کی ہو یا پھر زیادہ تر لوگ ایک ہی مسلک کے ہوں یا فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں، یاپھر ایک قسم کے کاروبار کرنے والے ہوں، یا پھر ایک جگہ کام کرنے والے ہوں، مہنگے علاقے، سستے علاقے، کم آمدنی والے علاقے، وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ سیاسی مسائل پر بھی ہمیں بانٹا جاتا ہے۔ ایک مسلئہ پر ایک ہی سیاستدان سیاست نہیں کرینگے۔ اگر کوئی ایک کسی ہنگامے کا مرتکب ہو رہا ہے تو دوسرا اسکےختم ہونے کا انتظار کرے گا۔ یہ ہمارے معاشرے کی واجبی سی تقسیم ہیں۔

5546e130dac6c1637b09f619940b21e3

جب سب کو پاکستان کی بقاء مقصود ہے تو پھر سفر مختلف سمتوں میں کیوں ہورہا۔ ساری سیاسی جماعتوں کا بنیادی منشور پاکستان اور پاکستانیوں کی سالمیت کیلئے ہوتا ہے مگر افسوس یہ منشور انتخابی مہم چلانے کیلئے مرتب دیا جاتا ہے اس میں وہ تمام مسائل درج ہوتے ہیں جن سے انتخابی امیدوار کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔یہ لوگ مسائل میں الجھا الجھا کر بانٹ دیتے ہیں۔

eee8a8d98708899af536f05cd6920e3d

یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے میں بھی ہوں اور تم بھی ہو اور میری مظلومیت بھی ہے اور تمھاری سیاست بھی ہے میں تو یونہی تمہیں ووٹ دیتا رہونگا اور تم یونہی حکومت کرتے رہوگے۔ آخر ایسا کونسا خوف ہے تمکو ہمیں بانٹنے پر اکساتا ہے ہمیں پاکستانی کہلوانے سے کیوں خوفزدہ ہوتے ہو۔ جب سارے سیاستدان پاکستان کی بقاء چاہتے ہیں پاکستان کر پر امن دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے گھر پاکستان سے باہر کیوں بناتے ہیں کیوں اپنے بچوں کو پاکستان سے باہر پڑھاتے ہیں آخر کیوں اپنا اور اپنے خاندان کا علاج باہر ملکوں میں کراتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ پاکستان سے کیسی محبت کرتے ہیں ۔ اپنی ہر وہ چیز جس سے محبت کرتے ہیں اسے پاکستان سے باہر رکھتے ہیں اور اپنے استعمال کی ہر وہ چیز جسے ضروری سمجھتے ہیں پاکستان سے باہر لے کر آتے ہیں۔ یہ پاکستان میں غیر محفوظ رہتے ہیں اور پاکستان سے باہر بہت محفوظ رہتے ہیں۔

یہ سارا خوف ہمیں تقسیم کرنے کا ہے یہ ڈرتے ہیں کہ یہ تقسیم کے لیئے کھینچی گئی لکیریں ہم پاکستانی کسی بھی وقت مٹا سکتے ہیں اور اگر یہ لکیریں مٹ گئیں تو ہمارے معزز و محترم سیاست دانوں کا کیا حشر ہوگا ہمیں تو علم نہیں ہے مگر یہ بہت اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ خدارا اب یہ تقسیم خود ہی ختم کردو کیوں دشمن کے عزائم کو ہمیں تقسیم کرکے تقویت پہنچاتے ہو۔ ہم نے اپنے ہر ہر عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ ہم صرف مشکلات میں ، حادثات میں، سیلابوں میں اور زلزلوں میں یا پھر پڑوسی ملکوں کی دراندازیوں سے نمٹنے کیلئے ایک ہیں ورنہ ہم ٹولیوں میں گروہ میں تقسیم ہوا جتھا ہیں ہجوم ہیں۔

مصنف کے بارے میں

خالد ذاہد شعر کہنے کا شغف رکھتے ہیں،آرٹیکل اور بلاگ لکھتےہیں، انکا ماننا ہے کہ ان کا قلم ملک میں قیامِ امن اورہم آہنگی کے فروغ میں کردار ادا کرسکتا ہے