وکلا کی تقریب میں شرکت، سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نوٹس جاری کردیا  

وکلا کی تقریب میں شرکت، سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نوٹس جاری کردیا  

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وکلا کی تقریب میں شرکت کرنے پر وزیراعظم عمران خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کسی خاص گروپ کے ساتھ خود کو محدود نہیں کر سکتے، ریاست کے وسائل کا کیوں غلط استعمال کر رہے ہیں؟

تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ انھیں یہ نوٹس کنونشن سینٹر میں وکلا کی ایک تقریب میں شرکت کرنے پر جاری کی گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کر رہے ہیں؟

سپریم کورٹ کی جانب سے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، انچارج کنوشن سینٹر اور متعلقہ وزارتوں کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں جبکہ معاملے پر بنچ تشکیل دینے کیلئے عدالتی حکم نامہ چیف جسٹس کو ارسال کر دیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔ بظاہر کنونشن سینٹر میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں شرکت کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی کسی خاص گروپ کے ساتھ خود کو محدود نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم ملک کے ہر فرد کے وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم نے وکلا کی تقریب میں شرکت کرکے کسی ایک گروپ کی حمایت کی۔ انچارج کنونشن سینٹر بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گیے؟ بادی النظر میں وزیراعظم نے نجی حیثیت میں کنونشن سینٹر کا استعمال کیا

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان کا عدالت کے روبرو اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک ونگ ہے۔ آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا وزیراعظم کو رتبہ بہت بڑا ہے۔ یہ تقریب کسی پرائیوٹ ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی۔ تقریب کیلئے ٹیکس دہندگان کے ویونیو کا استعمال کیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ایسی سرگرمیوں سے شرکت ہوئے جن کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بننے کے بعد وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ نے زیر سماعت مقدمے میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ کچھ روز قبل وزیراعظم نے کنونشن سینٹر میں انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے وہاں موجود وکلا سے خطاب بھی کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ لوگ قانون کی بالادستی نہیں مانتے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انھیں کوئی ہاتھ نہ لگائے کیونکہ یہ خود کو قانون سے ماورا سمجھتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں ہم چوری کریں یا ڈاکے ڈالیں، ہمیں کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ عدالت ان کیخلاف فیصلے کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ‘’مجھے کیوں نکالا’’۔ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کے اعلان کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ لوگ کسی کی چوری بچانے کے لئے نہیں نکلتے بلکہ کسی مقصد کیلئے نکلتے ہیں۔ یہ سارے مل کر دو سال بھی جلسے کریں، ہمارا ایک جلسہ ان سے زیادہ ہے۔ اپوزیشن جتنے مرضی جلسے کرے لیکن میں انھیں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر قانون توڑا تو سیدھا جیل جائیں گے۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود تو لندن بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو حکومت کیخلاف باہر نکلنے کا کہہ رہے ہیں۔ میں ان کے کارکنوں کو کہتا ہوں کہ ان سے پیسہ بھی لیں، قیمے کے نان بھی کھائیں لیکن گھر بیٹھے رہیں۔ نواز شریف کی بیماری پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جب ڈاکٹرز نے اتنی بیماریاں بتائی تو شیریں مزاری کی انکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے۔ اگر شیریں مزاری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو سمجھ لیں کیسی بیماریاں بتائی ہونگی۔

سابق گورنر سندھ محمد زبیر کو بھی اپنے خطاب میں وزیراعظم نے آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ان کا ایک نیا ترجمان بنا ہے، میں اس کے بارے میں کیا کہوں، وہ ہمارے وزیر کا بھائی ہے، اس نے نواز شریف کا موازنہ آیت اللہ خمینی سے کر دیا کہ وہ بھی باہر گئے تھے۔ حالانکہ آیت خمینی کی بیٹی کی باہر جائیدادیں نہیں تھیں۔ ان کے لئے لاہور سے نہاریاں نہیں آتی تھیں۔ ان سے ایران کی عوام پیار کرتی تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے پاکستانی فوج سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ فوج کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہم دہشت گردی سے محفوظ ہیں۔ پاکستانی فوج ہر ایجنڈے پر ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ حکومت کو کورونا سمیت جس مسئلے پر مدد کی ضرورت پڑی پاک فوج نے ساتھ دیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر میں آج پیسہ بنانا شروع کر دوں تو سب سے پہلے آئی ایس آئی کو پتا چلے گا کیونکہ پاکستانی خفیہ ادارہ دنیا کی ٹاپ کی ایجنسی ہے۔ اسے پتا ہے کہ میں کس طرح کی زندگی گزار رہا ہوں۔ دوسری جانب آئی ایس آئی کو ان سیاستدانوں کی چوری کا پتا ہے، یہ لوگ خفیہ ادارے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تب لڑائی ہوتی ہے۔ نواز شریف آئی ایس آئی کو پنجاب پولیس بنانا چاہتا ہے۔

وزیراعظم نے ایک بار پھر دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن کو کسی بھی قسم کا ریلیف نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جس دن انھیں این آر او ملا، پاکستان کی تباہی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مسئلہ جمہوریت نہیں کیونکہ جمہوریت تو میں ہوں، میں پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر آیا ہوں۔ ہمیں پتا تھا ہم نے دھاندلی نہیں کی، اس لئے ہم پہلے دن سے تیار تھے کہ الیکشن کھول دو۔ اگر دھاندلی ہوتی تو ہمیں اتحادیوں کی ضرورت نہ پڑتی۔