بخار اور آلو بخارا۔۔

بخار اور آلو بخارا۔۔

دوستو،سب سے پہلے تو دوہفتے سے زائد کی غیرحاضریوں پر معذرت چاہیں گے، وائرل بخار کے بعد اچانک ڈینگی نے آلیا، جس کے باعث بستر سے جالگے۔۔ ابھی تک معاملات قابو میں نہیں، ریکوری کا عمل جاری ہے۔۔ امید ہے ایک ہفتہ مزید صحت یابی میں لگے گا۔۔ لیکن اب پوری کوشش ہوگی کہ آپ لوگوں سے دور نہ رہا جائے۔۔ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ ”بخار“ کو برا نہیں کہتے، اس لئے ہماری خاموشی کو سب کچھ سمجھا جائے۔۔ ورنہ موڈ تو یہی تھا کہ بخار کے حوالے سے ایک ”آلو بخارا“ ٹائپ تحریر لکھ مارتے۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔ وائرل بخار کی آج تک سمجھ نہیں آئی، یہ ہمیشہ رات کو چڑھتا ہے اور صبح اتر جاتا ہے۔ہم نے باباجی کی بغور دیکھا باباجی سمجھ گئے کہ ہم ان کی بات ”ہضم“ نہیں کرسکے، چنانچہ بات بناتے ہوئے بولے۔۔یار لگتا ہے، وائرل بخار کی ہمیشہ نائٹ شفٹ ہی لگتی ہے۔۔
بات وائرس کی ہورہی تھی تو عالمی سطح پر کیے جانے والے ایک تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنا کووڈ-19 میں مبتلا ہونے یا اس وائرس سے سنگین نوعیت کے متاثر ہونے کے امکانات کو کم کردیتا ہے۔برٹش جرنل آف سپورٹس میڈیسن میں شائع ہونے والی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق باقاعدہ جسمانی سرگرمی کا کووڈ-19 کے کم خطرات، اس کی شدت، ہسپتال میں داخلے اور اموات کے درمیان تعلق پایا گیا ہے۔تحقیق کے مطابق ہفتے میں 150 منٹ کی معتدل مشقت کی یا 75 منٹ کی شدید مشقت کی جسمانی سرگرمیاں بہترین حفاظت کے طور پر سامنے آئیں۔تحقیق میں ہسپانوی محققین کی ٹیم نے لکھا کہ باقاعدہ جسمانی سرگرمی کا تعلق منفی کووڈ-19 نتائج سے دِکھتا ہے۔ ٹیم کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ افراد جو مستقل ورزش کرتے ہیں ان کے کووڈ میں مبتلا ہونے، انفیکشن سے ہسپتال میں داخلے، کووڈ میں شدت اور اس سے ہونے والی اموات کے امکانات ان لوگوں کی نسبت کم ہوتے ہیں جو ورزش نہیں کرتے ہیں۔ماہرین یہ بات جانتے ہیں کہ باقاعدہ ورزش اپنے اندر تنفس کے شدید انفکیشنز کے خلاف حفاظتی اثرات رکھتی ہے، بلا ناغہ جسمانی ورزش متعدد صحت کے فوائد سے جُڑی ہے جس میں موٹاپے یا ٹائپ 2 ذیا بیطس میں مبتلا ہونے میں امکانات میں کمی شامل ہے۔ مختلف تحقیقات میں یہ بتایا جاچکاہے کہ ورزش تنفس کے انفیکشنز کے خطرات اور شدت دونوں کو قوتِ مدافعت کو مضبوط کر کے کم کرسکتی ہے۔
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں مردوں سے زیادہ خواتین کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔یونیورسٹی آف مینیٹوبا میں کی جانے والی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ ڈیزل کے بخارات کے سبب ایسے پروٹینز کی سطح بلند ہوتی ہے جن کا تعلق امراضِ قلب سے ہوتا ہے۔یہ تجربہ مہینے میں تین مختلف مواقع پر کیا گیا جس میں تین مختلف ڈیزل کی مقدار والا دھواں استعمال کیا گیا۔دونوں جنسوں میں محققین نے خون کے اجزاء میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جن کا تعلق سوزش، انفیکشن اور امراضِ قلب سے تھا لیکن خواتین میں ان پروٹینز کی سطح میں زیادتی پائی گئی جو شریانوں کو سخت کرتے ہیں۔ایسا ہونا دل کے دورے یا فالج کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے اگرچہ اس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔پروفیسر نیلوفر مُکھرجی جن کا تعلق یونیورسٹی آف مینیٹوبا سے ہے اور وہ تحقیق کی شریک مصنفہ بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ یہ ابتدائی نتائج ہیں۔ البتہ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ڈیزل دھوئیں کے خواتین پر مختلف اثرات ہوتے ہیں۔محققین کی جانب سے تحقیق کے یہ نتائج بارسلونا میں منعقد ہونے والی یورپین ریسپائریٹری سوسائٹی انٹرنیشنل کانگریس میں پیش کیے گئے۔اس نئی تحقیق کے لئے ایسے 10 افراد، جن میں پانچ خواتین اور پانچ مرد شامل تھے، کا انتخاب کیا گیا جو سگریٹ نوشی نہیں کرتے تھے۔ تحقیق میں ان کو ایک وقت میں چار گھنٹوں تک دھوئیں میں سانس لینے کا کہا گیا لیکن اس سے قبل وہ چار گھنٹے صاف شفاف ہوا میں گزارتے تھے۔
اگر آپ کا بچہ رو رہا ہے تو سائنس نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا ہے، اپنے بچے کو گود میں لیں اور اسے پانچ منٹس کیلئے اپنے ساتھ لے جائیں تو وہ خاموش ہوجائے گا۔ یہ تحقیق کرنٹ بائیولوجی نامی تحقیقی جرنل میں شائع ہوئی ہے جس میں جاپان اور اٹلی میں بچوں کو خاموش کرانے کی حکمت عملی پر کام کیا گیا۔ اس تحقیق کے مصنفین کے مطابق انہیں امید ہے کہ اس تحقیق کے بعد والدین بالخصوص ناتجربہ کار ماں باپ کو ذہنی دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ جاپان میں دماغی سائنس سے متعلق ادارے ریکین سینٹر فار برین سائنس کے ایک سینئر مصنف کومی کوراودا نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ انہوں نے اپنے 4 بچوں کی پرورش کی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس وقت تک مذکورہ نتائج کے بارے میں معلوم نہیں تھا جب تک کہ انہوں نے مذکورہ تحقیق کے اعدادوشمار کو دیکھا۔ اس سے قبل تحقیق کرنے والی ٹیم نے دودھ پلانے والے ممالیہ جانوروں پر تحقیق کی تھی جن کے بچے خود اپنا خیال رکھنے کے قابل نہیں ہوتے، ان جانوروں میں چوہے، کتے، بندر اور دیگر شامل ہیں جبکہ انسانوں پر بھی تحقیق کی گئی۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جب یہ جانور اپنے بچوں کو اٹھا کر چلتے تھے تو ان کے بچے خاموش اور پرسکون ہوجاتے تھے۔
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انتہائی درجہ حرارت انٹرنیٹ پر نفرت انگیزی میں اضافہ کردیتا ہے۔جرمنی کے پوٹسڈیم انسٹیٹیوٹ فار کلائمیٹ اِمپیکٹ ریسرچ کے محققین کو تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ جب موسم زیادہ گرم یا سرد ہوتا ہے تو لوگ انٹرنیٹ پر لوگ زیادہ جارح مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔تحقیق کرنیوالے گروپ کی سربراہ لیونی وینز کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج نے آن لائن نفرت انگیزی کو موسمیاتی تغیر کی جانب سے پڑنے والے نئے اثر کو واضح کیا جو مجموعی طور پر معاشرے کی اکائی اور لوگوں کی ذہنی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔تحقیق میں محققین نے 2014 سے2020 کے درمیان امریکا میں کی جانے والی چار ارب سے زائد ٹوئٹس کا تجزیہ کرنے کے لیے مشین لرننگ کا استعمال کیا۔جس سے معلوم ہوا کہ ساڑھے سات کروڑ ٹوئٹس نفرت انگیزی پر مبنی تھیں۔بعد ازاں محققین نے ٹوئٹس کا مقامی موسم کے ڈیٹا سے موازنہ کیا تاکہ دونوں کے درمیان ممکنہ تعلق دیکھا جاسکے۔تحقیق کی سربراہ مصنفہ اینیکا اسٹیچی میسر کا کہنا تھا کہ تحقیق میں محققین کو ٹوئٹس کی حتمی تعداد اور انتہائی درجہ حرارت میں نفرت انگیز ٹوئٹس میں اضافے کے متعلق علم ہوا۔ جب بھی موسم زیادہ سرد یا گرم تھا لوگوں کا آن لائن رویہ زیادہ جارحانہ دیکھا گیا۔محققین کے مطابق 12 سے21 ڈگری سیلسیئس درجہ حرارت میں نفرت انگیز ٹوئٹس کی تعداد کم تھیں۔البتہ اگر درجہ حرارت اس سے کم تھا تو نفرت انگیزی میں 12 فی صد اضافہ دیکھا گیا جبکہ اس سے زیادہ درجہ حرارت کی صورت میں نفرت انگیزی میں 22 فی صد اضافہ سامنے آیا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لوگوں کی اکثریت ”موٹی کمر“ کے لئے فکرمند نظر آتی ہے ”موٹی عقل“کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں