اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں  کا احتساب آرڈیننس میں ترامیم پر اتفاق

اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں  کا احتساب آرڈیننس میں ترامیم پر اتفاق
کیپشن: فوٹو فائل

اسلام آباد: اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے احتساب آرڈیننس میں ترامیم پر اتفاق ہوگیا ،چیئرمین نیب سے گرفتاری کا اختیار واپس لینے اور یہ اختیار عدالت کے سپرد کرنے کی تجویز پر وزارت قانون وانصاف سے رائے لینے کا فیصلہ کرلیا گیا ۔ عوامی نوعیت کے قوانین کو بہتر بنانے کیلئے ضابطہ کار طے کیا جائے گا۔ جبکہ دونوں جماعتوں کو بعض آئینی وقانونی ماہرین نے آگاہ کیا ہے کہ بعض اداروں کے رولز آئین کے مطابق نہیں ہیں پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا جائزہ لے کیونکہ قواعدوضوابط کی منظوری دینا بھی پارلیمنٹ کا اختیار ہے ۔

اس امر کا اظہارآج سینیٹ کی قانونی اصلاحات کے بارے میں خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا ہے ۔ اجلاس میں وزارت قانون کے مشیر جسٹس (ر)محمد رضاخان سمیت وزارت قانون کے حکام سابق سینئرپارلیمینٹرین قانون دان انور بھنڈرنے شرکت کی ۔ اجلاس کمیٹی کے کنوینئر سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کی صدارت میں ہواپاکستان مسلم لیگ ن کی نمائندگی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون وانصاف کے چیئرمین سینیٹر جاوید عباسی نے سینیٹ آف پاکستان میں قانونی اصلاحات کیلئے یہ خصوصی کمیٹی تمام جماعتوں کی مشاورت سے قائم کی ہے اور کمیٹی اراکین کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر بااختیار ہے اس حوالے سے ماضی کی طرح کسی معاملے پر پارٹی قیادت سے رائے کی نوبت نہیں آئے گی ۔ اجلاس کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عام آدمی کو متاثر کرنے والے قوانین کو بہتر بنایا جائے ۔ نیب آرڈیننس سے سب سے زیادہ عوامی شکایات ہیں ۔

جاوید عباسی نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں نشانہ بنانے کیلئے یہ آرڈیننس لایا گیا ۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ادوار میں دو بڑی اسمبلیاں گزر گئیں مگر نیب آرڈیننس میں پارلیمنٹ کا منہ نہیں دیکھا تمام جماعتوں کو نیب آرڈیننس کے بارے میں شکایات ہیں ماضی میں پارلیمانی احتساب کمیٹی میں کام ہوا تھا مگر سیاسی جماعتیں پیچھے ہٹ گئیں اور یہ معاملہ طے نہ ہوسکا ۔ اس بات پر اتفاق ہوگیا تھا کہ نیب کے مجوزہ قانون کے تحت گرفتاری کا اختیار عدالت کے پاس ہونا چاہیے ۔ نیب کا بدعنوانی کے مقدمات کے حوالے سے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے ۔ چھوٹی رقوم کے مقدمات کا اختیار نیب کے پاس نہیں ہونا چاہیے اس حوالے سے ایف آئی اے او رانسداد بدعنوانی کے دیگر ادارے موجود ہیں دونوں جماعتوں کے ارکان نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ریفرنس پر فیصلہ ہونے سے پہلے کسی پر الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے ۔