گرمی کا عذا ب، بجلی کا بِل

Dr Ibrahim Mughal, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

 اگر صر ف گھر یلو صا رفین کی ہی با ت کر یں تو پورے سا ل کے دوران جو فیکٹر ان کے بجٹ میں ایک سمجھ میں نہ آ نے وا لے بگاڑ کا با عث بنتا ہے، وہ بجلی کے بِل کی صو رت میں سا منے آ تا ہے۔ مہینے کا پیشگی بجٹ تر تیب دیتے وقت گذ شتہ بر س کے بلو ں پہ انحصا ر کرتے ہو ئے ما ہوار آ مد نی کا ایک حصہ بجلی کے آ نے والے بل کے لیئے مخصو ص کر دیا جا تا ہے۔ مگر چہرے ایک دم لٹک جا تے ہیں جیسے ہی بجلی کا بل و صو ل ہو تاہے۔ کفایت شعا ری تو رہی دور کی بات، کنجو سی کی حد تک بجلی کے پنکھے اور رو شنی کے قمقمے ہر تھوڑی دیر کے بعد بند کر نے کے با وجو د بجلی کا بل منہ چڑھا رہا ہو تا ہے۔ البتہ ایک تلخ حقیقت تسلیم کئے بغیر چا رہ نہیں۔وہ یہ کہ جب سے ایئر کنڈ یشنر ہمارے گھر کا حصہ بنا ہے،تب سے ہمیں اس عذ ا ب کا سا منا ہے۔ بہر حا ل اب اس پہ بحث فضو ل ہے کہ یہ ڈ ھو ل ہما رے گلے میں مستقل طور پر پڑ چکا ہے،اس کے بغیر چا رہ نہیں۔ اب آ تے ہیں مو جو دہ زمینی حقا ئق کی جانب۔ تو با ت کچھ یو ں ہے کہ اصلاحات کے نام پر بجلی پر دی جانے والی سبسڈی میں 40 فیصد کمی کرنے والا مجوزہ پلان صارفین کے لیے نئی پریشانیاں اور مہنگائی کا تندو تیز طوفان لے کر آئے گا۔ نیپرا کے چیئرمین نے صارفین کو پیشگی متنبہ کردیا ہے کہ اس سے لوگوں کی چیخیں نکلیں گی۔ بجلی کی سبسڈی کو معقول بنانے کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ مگر اس پلان کے تحت جس طرح پہلے سے موجود سلیبز کو نئی سلیبز کے ساتھ بدلنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے اور نئی سلیبز کی تشکیل کے لیے جو فارمولا اختیار کیا جارہا ہے اس میں کئی ابہام ہیں۔ حکومت ’ٹارگٹڈ سبسڈی‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے مگر یہ واضح نہیں کہ اس پیمانہ کا کیا ہوگا۔ کیا وسائل یا آمدنی کی بنیاد پر سبسڈی دی جائے گی یا توانائی کی کھپت پر؟ اب تک توانائی کی مقدار ہی سبسڈی کا پیمانہ رہی مگر ’ٹارگٹڈ سبسڈی‘ کا مطلب اگر یہ ہے کہ صارفین کو ان کی کھپت کے بجائے آمدنی کی بنیاد پر سبسڈی دی جائے تو اس حوالے سے بجلی کے صارفین کے وسائل آمدنی اور اخراجات معلوم کرنے کے لیے جس جامع سروے کی ضرورت ہوگی، وہ آسان کام نہیں۔ کھپت کی بنیاد پر سبسڈی ایک قابل عمل طریقہ رہا ہے، مگر اس میں بھی سلیبز کی تشکیل معقول بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ ایک عام کنبہ جو کوئی لگژی آئٹمز بھی استعمال نہیں کرتا، مہینے میں دو سو یونٹ سے زائد بجلی خرچ کر جاتا ہے مگر لائف لائن کی صد صرف پچاس یونٹ تک ہے اور اس حد سے اوپر نکل جانے پر چارگنا زیادہ چارجز لاگو ہوتے ہیں۔ اس طرح متوسط طبقے کے شہریوں کے لیے بھی پچاس یونٹ کی لائف لائن سلیب ہرگز سہولت ثابت نہیں ہوتی۔ اگر حکومت واقعی کم آمدنی والے طبقے کو بجلی کے بلوں میں فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو لائف لائن کی حد کم از کم 200 یونٹ کی جائے۔ جبکہ قیمتوں میں اضافے کا فارمولا بھی اس طرح بنایا جائے کہ کم از کم پہلے تین چار سو یونٹس تک سلیبز کے ٹیرف میں زیادہ فرق نہ ہو کیونکہ متوسط طبقہ زیادہ تر اسی بریکٹ میں آتا ہے جو بجلی کی قیمتوں میں ردّو بدل سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ سبسڈی میں اصلاحات کے مجوزہ پلان میں 200 یونٹ کی پروٹیکٹڈ کیٹگری کو شامل کیا جارہا ہے مگر اس کے لیے یہ حیران کن شرط رکھی گئی ہے کہ جو صارف چھ ماہ میں ماہانہ یونٹ 200 سے اوپر چلا گیا وہ اس پروٹیکٹڈ کیٹگری کے فوائد سے محروم ہوجائے گا۔ بدلتے موسموں کے ساتھ بجلی کی کھپت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے چھ ماہ تک 200 یونٹ کی حد کو برقرار رکھنا اکثر صارفین کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے اس بریکٹ میں آنے والوں کے لیے حکومت جو بھی فوائد مختص کرلے، عملی طور پر اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ بجلی کے بل کی 
ریڈنگ ایک دو روز آگے چلی جائے تو یونٹس کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور صارفین کو رعایتی سلیبز سے محروم کرنے کا یہ ایک آزمودہ طریقہ ہے جو بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں عام استعمال کرتی ہیں۔ اگر حکومت ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لیے ریڈنگ کے ضوابط لاگو نہیں کرتی تو سبسڈی اور ٹیرف اصلاحات کی کوئی صورت بھی عملاً صارفین کے لیے بے معنی ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ ان اصلاحات سے جو اضافی پیسہ حاصل ہو گا وہ بجلی  کے گردشی قرضوں کی ادائیگی میں مدد دے گا۔ قرضوں کا یہ بوجھ موجودہ حکومت کے دور میں تقریبا دُگنا ہوچکا ہے۔ جون 2018ء میں 1148 ارب روپے کے گردشی قرضے تھے جو اس سال جون میں 2327 ارب روپے تک پہنچ 
چکے ہیں۔ پاور سیکٹر کی مینجمنٹ میں حکومت کی یہ سب سے بڑی ناکامی ہے جس نے عالمی قرض دہندگان کو پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی بجلی کے شعبے کے لیے کڑی ہدایات، سبسڈیز کے خاتمے اور ٹیرف میں اضافے کے مطالبات ڈھکے چھپے نہیں۔ اب ورلڈ بینک بھی یہی مطالبے کرنے لگا ہے۔ ورلڈ بینک نے توانائی کے منصوبوں کے لیے ایک ارب ڈالر قرض کو بجلی کے ٹیرف میں اضافے سے مشروط کردیا ہے جبکہ آئی ایم ایف کا چھ ارب ڈالر قرض کا منصوبہ، جو اس وقت معطل ہے، کی بحالی اور اگلی قسط کا اجرا بھی بجلی کے نرخوں میں اڑھائی سے تین روپے فی یونٹ یکمشت اضافے سے جڑا ہوا ہے۔ اس صورت حال کو وزیر خزانہ شوکت ترین کی اُن بڑھکوں کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے جو وزارتِ خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے بڑے اعتماد سے ماری تھیں کہ وہ آئی ایم ایف کے ان مطالبات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وزیرِ خزانہ نے بجلی کے ٹیرف میں اضافے کو پاکستان کے معاشی مفادات سے متصادم قرار دیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حکومتی فیصلے اسی جانب حرکت نظر آتے ہیں اور گردشی قرضوں کے پہاڑ عالمی مالیاتی اداروں کو یہ کہنے کا جواز فراہم کر رہے ہیں کہ لین دین کی بات بجلی کے شعبے میں ان کی ہدایات پر عمل درآمد سے چلے گی۔ اگر پاور سیکٹر کو سنبھالنے میں اس لاابالی پن کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا، گردشی قرضوں کو مینج کرنے کی کوئی قابل عمل سکیم بنائی جاتی تو یقینا یہ مشکلات جو عوامی معیشت پرآ گے گراں بوجھ بنیں گی، پیدا نہ ہوتی۔ توانائی کی کھپت کسی سماج میں ترقی کی رفتار کا ایک اشاریہ سمجھی جاتی ہے۔ زیادہ توانائی کی کھپت زیادہ پیداوار کی علامت سمجھی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں توانائی پر حکومتی اخراجات اور بے انتظامی کا بوجھ عوامی قوتِ برداشت کا امتحان لے رہا ہے۔ حکومت کو احساس کرنا چاہیے!