افواج پر تنقید اور اکسانے میں فرق ہے!

افواج پر تنقید اور اکسانے میں فرق ہے!

افواج پاکستان نہ صرف ملکی دفاع کی ہر ضرورت پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے بلکہ پاک فوج کے افسران وجوانوں نے اقوام متحدہ کے امن مشن اورریاست کے خلاف کسی بھی انتشارکوروکنے کیلئے اپنی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا ہمیشہ مظاہرہ کیا ہے۔پاک فوج کے ڈسپلن کی پوری دنیا قائل ہے اورقوم فوج کے ساتھ محبت کرتی ہے لیکن عرصے سے مخصوص حلقے فوج جیسے مثالی منظم ادارے کے خلاف منظم مہم چلا رہے ہیں۔شہباز گِل نے ٹی وی پروگرام میں جومتنازع گفتگو کی ہے اس بنیاد پر انکے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا گیااور سرکار کی مدعیت میں اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں ملک میں انتشار پھیلانے، فوج کو تقسیم کرنے، فوجی جوانوں کو اپنے افسران کا حکم نہ ماننے کی ترغیب دینے، فوج کے خلاف عوام کو نفرت پر اکسانے اور پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی دفعات 505،120، 120D ، 153، 153 A ، 124 اور 121 کے تحت ایف آئی آر نمبر 691/22  درج کی گئی۔ شہباز گِل نے خاص رینکس کو پکار کر کہا کہ وہ پی ٹی آئی کو محبت کرتے ہیں اورایسے جملے دہرائے جن کو دہرانا بھی قومی مفاد میں نہیں ۔فوجی افسران اور رینکس کوبغاوت پر اکسانے جیسے الفاظ یا تحریر کسی طور اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں نہیں آتے، جس کا مقصد فوج کے بنیادی ڈھانچے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش ہے۔جس کے خلاف کارروائی پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت بنتی ہے اورسپریم کورٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے مختلف فیصلے واضح ہیں۔ عوام یقینا افواج پاکستان،اپنے جوانوں وشہدا کے خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان ایٹمی ریاست ہے جس کے اہم ستون پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ، پاک فوج اور میڈیا ہیں،عدلیہ اورپاک فوج کی غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر ان کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ آئین کے مطابق ریاست کا کوئی شہری عدلیہ اور پاک فوج کی تضحیک نہیں کر سکتا، افواج پاکستان سمیت ملکی اداروں کے خلاف بات کرنا آئین کے آرٹیکل 243, 244 اور 245 سمیت دیگر آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہے۔ فوج کے خلاف ہرزہ سرائی سے متعلق ایک بل پاکستان پینل کوڈ 1860 اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر1898 میں ترمیم کے بعد کرمنل لا (ترمیمی) ایکٹ بل 2020 کے مطابق کوئی بھی پاکستان کی مسلح افواج کا تمسخر اڑاتا ہے، وقار کو گزند پہنچاتا ہے یا بدنام کرتا ہے وہ ایسے جرم کا قصوروار ہو گا تو دو سال تک قید کی سزایاپانچ لاکھ روپے جرمانہ یادونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
سانحہ لسبیلہ بلوچستان میں ہیلی کاپٹر حادثہ بہت بڑا سانحہ تھا، لیکن سوشل میڈیا پر افواج پاکستان بارے جو منفی زبان استعمال کی گئی وہ قابل مذمت ہے، ادارے کے رینکس اینڈ فائل میں بغاوت پراکسانے کی حرکت کی گئی،ان سازشی کرداروں کی حقیقت مزید تحقیقات کے بعد سامنے آئیں گی۔ شہباز گل کیخلاف ریاست کی مدعیت پر مقدمہ اور گرفتاری قانون کے تحت ہے،جبکہ پی ٹی آئی کاکہناہے کہ یہ اغواہے۔ شہباز گل بیان پر پی ٹی آئی کے قریبی اتحادی اور وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بھی نالاں نظر آتے ہیں،پی ٹی آئی کو اس بیان سے دوری اختیار کرنا چاہیے تھی لیکن پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے شہباز گل کے اس بیان سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی۔ ضروری ہے کہ فوج مخالف بیانات کیخلاف کارروائی بلا تفریق غیرجانبداری سے کی جائے، بظاھرشہباز گل کے مسئلے پر پاکستان مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی سے اپنے پرانے حساب کتاب چکانا چاہتی ہے۔لیکن درحقیقت ماضی میں اس حوالے سے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے فوج مخالف بیانات دیے ہیں، لہٰذا ایسی کارروائیاں تمام سیاسی جماعتوں پر یکساں کی جائیں، تاکہ کوئی نہ بچ پائے۔وگرنہ سوال اٹھے گا کہ اگر پی ٹی آئی کے خلاف فوج مخالف بیان پر کارروائی ہو سکتی ہے تو دوسری جماعتوں کے خلاف کیوں نہیں؟تنقید جمہوری معاشرے کا ایک اہم جزو ہے جوپاکستانی شہریوں کا قانونی اور آئینی حق ہے لیکن تنقید اور اکسانے میں فرق ہے۔ابھی تو شہباز گل پرصرف مقدمہ قائم ہوا ہے،اگر اس کو سزا ہوتی ہے اور اگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سزا کو برقرار بھی رکھتے ہیں تو نتائج بہت منفی بھی ہو سکتے ہیں۔ شہباز گل نے تنقید نہیں بلکہ رینکس کوفوج کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔فوج پر تنقید،اس کو بدنام کرنا، اس کے خلاف نفرت پھیلانا یا قیادت کے خلاف بھڑکانا ایک مذموم عمل ہے۔
فوج ایک ادارہ ہے جوڈسپلن پر چلتاہے، ڈسپلن فورس بغیر سوال اٹھائے احکامات کی تعمیل کو اپنا فرض سمجھتی ہے اوراپنے ادارے کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کرتی ہے۔یہی ڈسپلن کیڈٹس، آفیسرز اور جوانوں کورول ماڈل بنا دیتا ہے، ڈسپلن کا متضاد انارکی ہے۔ آرمی سخت تربیتی ماحول میں انکار کا رواج نہیں کیونکہ انکار،درگزر اور نرمی کے عمل سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کمزور بھی پڑ سکتے ہیں۔نظم و ضبط اور احکامات کی تعمیل فوج کی تربیت کیلئے لازم ہے۔ اگر کوئی اکسائے کہ وہ افسران کے احکامات نہ مانیں، تو یہ بہت خطرناک عمل ہے اورواضح بغاوت پر اکسانے کے مترادف ہے۔دنیا میں کہیں بھی یہ کلچر نہیں ہے کہ فوج کو مذاکروں اور مباحثوں میں موضوع بحث بنایا جائے۔شہباز گل کا معاملہ فوج پر تنقید کا نہیں، بلکہ واضح طور فوجی رینکس اینڈ فائلزکو حکم عدولی پر اْکسانے کا ہے اور عام معمول کی تنقید سے اسکا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خوفناک روش ہے کہ فوج مخالف ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں اور پھر انڈیا سمیت دیگر ممالک سے بھی ٹرینڈز چلتے ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ زیب نہیں دیتا،اس سے فساد اور فتنہ ہو گا جس کی پاکستان میں گنجائش نہیں۔پاکستان اس وقت معاشی طورپر انتہائی نازک صورتِ حال سے دو چار ہے۔سیاسی جماعتیں زبان کا جو غیر مناسب استعمال کررہی ہیں،ماضی میں اس کی مثال نہ ہے۔اداروں اور عوام کے درمیان نفرت کی جو لکیر کھینچی جارہی ہے وہ عالمی سازش ہے جو ہائبرڈ جنگ کا بھی حصہ ہو سکتی ہے جس بارے عوام اور قیادت دونوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ ملک معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکاہے،تمام سیاسی جماعتوں کو ملکی مفاد میں مذاکرات کی جانب جانا ہوگا تاکہ سیاسی حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال کا خاتمہ ہوسکے۔ پاک فوج ریاست کی سلامتی، آزادی اور شہریوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا واحد ضامن دفاعی ادارہ ہے۔جو شخص وطن سے محبت کرتا ہے وہ فوج پر شدید منفی نوعیت کی تنقید کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا جس سے پاک فوج کمزور ہو اس کے اندر بددلی اور بد اعتمادی پیدا ہونے کا امکان ہو، پاکستان اس وقت اندرونی طور پر کسی بھی طرح کی باہمی چپقلش کا متحمل نہیں ہوسکتا،سیاسی مفادات کیلئے وطن عزیز کونقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوج اور سیاسی قیادت کو ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے اور حل کی کوشش کرنا چاہیے، اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہترین ملکی مفاد کی ضمانت ہے۔ وطن کے دفاع اور تحفظ کیلئے پاک فوج کے بے پناہ جذبے اورقربانیوں پر پوری قوم کو فخر ہے۔افواج پاکستان ملکی دفاع کی ضامن ہیں، کسی بھی ملک کی فوج عوام کا اعتماد اور ملکی سلامتی کی ذمہ دار ہوتی ہے ملکی سلامتی کے اداروں پر بے جا تنقید کرنا دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ عوامی حمایت فوج کی طاقت کا منبع ہے،عوام اور فوج کے درمیان خلیج یا کوئی سازش برداشت یا کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔تمام اداروں کو ایک پیج پر آکر ملک کو ہر قسم کے بحران سے نکالنے کیلئے حکمتِ عملی بنانا ہوگی اسی میں ہماری بقا اور ترقی ہے۔

مصنف کے بارے میں