ڈی آئی خان میئر الیکشن میں گھمسان کا رن

ڈی آئی خان میئر الیکشن میں گھمسان کا رن

ڈیرہ اسماعیل خان جو صوبہ خیبر پختونخوا کا دوسرا اہم اور بڑا شہرہے ،سیاسی لحاظ سے ہمیشہ سے ملکی سطح پر ایک اہم مقام رکھتاہے ،یہاں سے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ،مولانا مفتی محمود کے مقابلے میں عمران خان اور علی امین خان گنڈہ پور ،مولانا فضل الرحمٰن اور سابق سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم خان کنڈی بھی مولانا فضل الرحمٰن کے مقابلے میں الیکشن لڑ چکے ہیں ،اس شہر میں تحصیل میئر ڈیرہ کا الیکشن ملک گیر مقبولیت حاصل کرچکا ہے ،یہ الیکشن پہلے اے این پی  کے امیدوار عمر خطاب شیرانی کے ایک دن پہلے قتل ہونے کے باعث معطل ہوچکا ہے جواب 13 فروری کو ہونے جارہا ہے ،اس میئر کے الیکشن میں علی امین خان گنڈہ پور کے بھائی سابق تحصیل ناظم عمر امین خان گنڈہ پور ،پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر جبکہ جے یو آئی کی ٹکٹ پر کفیل احمد نظامی اور پی پی پی کی ٹکٹ پر فیصل کریم خان کنڈی الیکشن میں سرفہرست اور مقبول امیدوار میں شامل ہیں ،جبکہ تحریک لبیک کی طرف سے شفیق قصوریہ بھی مقابلے میں کسی حد تک موجود ہیں ،مورخہ سات فروری کو اچانک دلچسپ صورتحال اس وقت پید ا ہوگئی جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے امیدوار عمر امین خان کو ضابطہ اخلاق قوانین کی خلاف ورزی پر نااہل قرار دے دیا ،ان کے بھائی علی امین خان گنڈہ پور پر الیکشن مہم میں بار بار کے الیکشن کمیشن کے نوٹسز کے باوجود حصہ لینے ،ترقیاتی کاموں کا سرکاری فنڈز سے اعلان اور سرکاری نوکریاں دینے اور مبینہ طور پر رقوم باٹنے کا الزام تھا جس کے باعث ان کے بھائی کو نااہل قرار دے دیاگیا جس کے خلاف وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل میں گئے اور عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جے یو آئی کے امیدوار کفیل احمد نظامی ،مولانا عبید الرحمٰن اور پی پی 
پی کے رکن صوبائی اسمبلی احمدکریم کنڈی کو بھی نوٹسز جاری کئے جا چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے علی امین گنڈہ پور ضلع بدر کرنے اور احمد کریم خان کنڈی کو گرفتارکرنے کے احکامات جاری کیے جوکہ بعدازاں ان کی اپیلوں پر واپس لے لئے گئے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو سی پیک کے افتتاح کے موقع پر اور ڈیرہ شہر میں مورخہ سات فروری کو جی پی او چوک پر جلسہ کرنے سے بھی منع کیا لیکن مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ہم تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جلسے کررہے ہیں ،ہمارا الیکشن مہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پیر کے روز جی  پی او چوک ڈیرہ میں مولانا فضل الرحمٰن کے جلسے کے باعث ڈیرہ میں عوام الناس کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،ڈیرہ کی تمام تر بھاری ٹریفک سرکلر روڈ سے گزرتی ہے ،ڈسٹرکٹ ہسپتال کوبھی  راستے کی بندش کی وجہ سے جانا محال ہو گیا، اگر مولانا کو حق نواز پارک یا بیساکھی گرائونڈز میں جلسہ کرنے کی اجازت مل جاتی تو شاید عوام دشواری سے بچ جاتے، بہرحال سیاسی جماعتوں کو بھی مخلوق خدا کو تکلیف دینے سے اجتناب کرنا چاہیے ،ڈیرہ میں میئر شپ کے مقابلے میں جے یو آئی بمقابلہ پی ٹی آئی ،مولانا فضل الرحمٰن بمقابلہ عمران خان ،مولانا اسد محمود بمقابلہ علی امین خان گنڈہ پور قرار دیا جارہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جے یوآئی نے یہاں تن من دھن لگارکھا ہے جبکہ فیصل کریم خان کنڈی جن کے بقول وہ آصف علی زرداری کی ہدایت پر میئر شپ کا الیکشن لڑ رہے ہیں بھی مقابلے کی دوڑ میں برابر کے شریک ہیں ،ڈیرہ میں ہمیشہ پی پی پی اور جے یو آئی ف کا بھاری ووٹ بینک موجود ہے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوارعمرامین خان گنڈہ پور اور ان کے بھائی علی امین خان کو تمام تر حکومتی وسائل اور فنڈز کا حصول حاصل ہے،وہ اپنی الیکشن مہم کو، گلی محلوں کی تعمیر ،نکاسی آب کے منصوبوں ،پارکس ،کھیل کے میدانوں کی تعمیر اور نوکریوں کا لالچ دے کر چلانے میں مصروف ہیں ،چاہے نوکریاں تمام تر قاعدہ اور قوانین کے خلاف دی جارہی ہوں کوئی میرٹ نہ دیکھا جارہا ہو، انہیں شہر کے کئی نومنتخب ناظمین ،کونسلرز کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ گلگت اور کشمیر کا الیکشن حکمران جماعت کو جتوا چکے ہیں ،میئر کا الیکشن ان کے لئے جیتنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ، جے یوآئی (ف) کے امیدوار کو ڈیرہ کی تاجر برادری  میں سے بیشترکی حمایت کے علاوہ مذہبی طبقے کاووٹ حاصل ہے ،ان کی پوزیشن سب امیدواروں میں نمایاں ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن جیسے زیرک سیاستدان پی ڈی ایم کے نام پر ان کی الیکشن مہم کے لئے معاون ثابت ہورہے ہیں ،فیصل کریم خان کنڈی جو کہ پہلے تیسرے نمبر پر تھے اب انہوںنے اے این پی ،وحدت اسلامی ڈیرہ اور مسلم لیگ (ن) کے ایک دھڑے کی حمایت حاصل کرلی ہے جس کے باعث وہ مقابلے میں برابر کے شریک ہوگئے ہیں، جے یوآئی ف، پی ٹی آئی اور پی پی پی کے ڈیرہ کے میئر شپ الیکشن میں کون حاصل کرے گا یہ توآنے والا وقت بتائے گا ،یہ الیکشن ڈیرہ اور ملک گیر سطح پر جیتنے والی جماعت کی عوامی مقبولیت کا پتہ دے گا، پی ٹی آئی کے امیدوار کی مخالفت میں مہنگائی، بدامنی، بے روزگاری ،بجلی گیس کی ناروا لوڈ شیڈنگ ،کرپشن اہم مسائل ہیں جبکہ جے یو آئی ف سے عوام کو یہ گلہ ہے کہ ان کے قائدین ،اکابرین ،مقامی سطح پر لوگوں کے انفرادی واجتماعی مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے ،اور عوام کے ساتھ ان کے رابطوں میں بہت فقدان ہوتاہے۔ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح پہلے سترہ اضلاع کے الیکشن میں غیر جانبداری کا کردار  ادا کیا اس سے اب بھی ایسی ہی روش کی امید ہے۔

مصنف کے بارے میں