مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان

Khalid Minhas, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

اقبالؒ کا ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے
اپنے بھی خفا مجھ سے، بیگانے بھی نا خوش
مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کا معاملہ بھی اس مصرعہ کی مانند ہے۔ 1947 میں زبردستی لکیر کے اس پار دھکیل دیے جانے والے مہاجرین جموں و کشمیر کی آزاد کشمیر کی اسمبلی میں نشستوں، داخلوں اور ملازمت میں کوٹہ کی "عنایات خسروانہ" پر آزاد کشمیر میں بسنے والے میرے کچھ ہم وطن بہت بے چین رہتے ہیں اور ان کا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ ان نشستوں کو ختم کیا جائے کیونکہ ان نشستوں کی وجہ سے پاکستان ان کی حکومت سازی کے عمل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ان مہاجرین کی تیسری نسل اب پاکستان میں رہ رہی ہے اس لیے ان کے اسٹیٹ سبجیکٹ ختم کیے جائیں۔ عقل و خرد سے عاری لوگ اس قسم کی بات کریں تو اس پر توجہ دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے لیکن جب ذی شعور افراد اس قسم کے بیانیے کو لے کر سامنے آئیں تو پھر ان کے دلائل کا جواب ضرور دینا چاہیے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان دلائل کا جواب وہ لوگ دیتے جو مہاجرینِ جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے نمائندے ہیں لیکن وہ کیا جواب دیں گے کہ وہ تو اقتدار کے مزے لے رہے ہیں اور اس قسم کی باتوں پر توجہ دینے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں دوسرا وہ بھی جانتے ہیں کہ ان کو منتخب کرنے والے کون ہیں، اسی لیے وہ خاموش ہیں۔ مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان ایک گالی نہیں ہے بلکہ یہ وہ بدقسمت لوگ ہیں جن سے ان کا گھر بار چھین لیا گیا تھا اور وہ پاکستان اس آس اور امید پر آئے تھے کہ جلد ہی وہ آزاد ہو جائیں گے اور واپس اپنے گھروں میں چلے جائیں گے۔ سات دہائیوں میں یہ موقع نہیں آیا اور ہماری ایک نسل یہ خواب سجائے قبرستانوں میں جا سوئی۔ طارق نقاش کا شمار آزاد کشمیر کے چند پڑھے لکھے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ مظفرآباد میں مقیم ہیں اور ڈان سمیت مختلف اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز کے لیے کام کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے ایک بحث کا آغاز کیا ہے، انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ "آزادکشمیراسمبلی میں مہاجرین مقیم پاکستان کی تیسری نسل کی بھی۱۲سیٹیں اس لئے رکھی گئی ہیں کہ رائے شماری میں ان کے ووٹ بھی ہمارے کھاتے گنے جائیں گے۔ مطلب سیٹوں کاجوازمسئلہ کشمیر ہے مگر ان ارکان کی واحد دلچسپی آزاد کشمیر حکومت میں شمولیت ہوتی ہے۔ ۵جنوری کو ان ۱۲ میں سے کوئی ایک بھی کسی مظاہرے میں نظر آیا؟؟" طارق نقاش بھولے آدمی ہیں کہ یہ تو ان ووٹرز کو نظر نہیں آتے جن سے انہوں نے ووٹ حاصل کیے تھے وہ ان مظاہروں میں کیونکر نظر آئیں گے انہیں جن لوگوں نے بھیجا ہے وہ انہیں ضرور یاد رکھتے ہیں۔ ان کے اس ٹویٹ پر ردعمل بھی دلچسپ تھا۔ طارق نقاش نے تالاب میں پتھر پھینک دیا ہے اور اس پر جو ردعمل آیا ہے وہ توقع کے عین مطابق تھا۔ وہ باتیں زبان پر آ گئیں جو دل میں تھیں مثلاً ایک صارف نے کہا کہ "مظاہرے کو چھوڑیں سر ایک ماہ سے مہاجرین وزرا اپنے دفاتر میں نہں بیٹھتے 35 فیصد جابز کوٹہ اور ان ایم ایل ایز اور وزرا کا فنڈ AJK کی عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ان ایم ایل ایز کے حلقوں میں ہر کام وہاں کی مقامی صوبائی حکومتیں کرتی ہیں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ یہ سیٹیں ختم 
ہونی چاہئیں۔" ایک اور عباسی صاحب سامنے آئے اور کہنے لگے "ان نشستوں کی کوئی ضرورت نہیں یہاں سے کامیاب ہوکر آنے والوں کا کشمیر سے دور کا بھی واسطہ نہیں یہ کئی نسلوں سے یہاں مہاجر مہاجر کھیل کر مزے اڑا رہے ہیں۔" ایک صارف سعید الراشد اعوان نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ " ان 12 سیٹوں سے 33 سیٹوں کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ ان سیٹوں کی تعداد بلحاظ آبادی 2 ویلی اور 2 جموں ہونی چاہیے اور انکا انتخاب مخصوص نشستوں کی طرح اسمبلی ممبران کریں۔ مہاجرین مقیم پاکستان کے نام پر بہت سے جعل ساز اسمبلی میں ہر وقت ہارس ٹریڈنگ کیلئے آن ڈیمانڈ حاضر ہیں۔" ایک صاحب تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے کہ " یہ لوگ اب صرف کالجوں میں داخلے اور آزاد کشمیر حکومت سے رعائت لینے کی حد تک کشمیری رہ گئے ہیں۔ وگرنہ ان کی اور اولادوں کو تو کشمیر کی اے بی سی بھی نہیں معلوم۔" کوئی کہہ رہا ہے کہ دنیا کی عجیب اسمبلی ہے جس کے ووٹرز  پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک نے کہا کہ مہاجرین کو ہی ملازمتیں دی جاتی ہیں، یہ ریاست کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اس بحث میں طارق فاروق نے بھی حاصل لیا۔ طارق فاروق سابق سنئیر وزیر ہیں، انہوں نے ایک طرف ان نشستوں کی حمایت کی اور دوسری طرف یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین میں رجسٹرڈ ہیں اور کیا انہیں مہاجرین میں شمار ہونا چاہیے، بعد میں ان کا یہ ٹویٹ نظر نہیں آیا۔ خاکسار نے انہیں جواب دیا کہ اقوام متحدہ کا مہاجرین کا ادارہ دسمبر 1950 میں وجود میں آیا تھا۔ طارق نقاش کی اس ٹویٹ پر بعض صارفین نے مہاجرین کے حق میں چند دلائل دیے جو ناکافی تھے۔
مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے حوالے سے جو اعتراضات ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
1۔ آزاد کشمیر کی اس اسمبلی میں ان کی نشستیں ختم کی جائیں کہ یہ لوگ حکومت سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
2۔ اسٹیٹ سبجیکٹ ختم کیا جائے کہ اس کی بنیاد پر انہیں ملازمتیں دی جاتی ہیں اور کالجز میں داخلہ ملتا ہے۔
3۔ پاکستان میں ان کی تیسری نسل آ گئی ہے اس لیے اب وہ کشمیری نہیں رہے۔
4۔ جعلی اسٹیٹ سبجیکٹ بنا کر ملازمتیں حاصل کی جاتی ہیں۔
اب ان اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔ 33 کی اسمبلی میں یہ 12 نشستیں بہت کم ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آزاد کشمیر کی آبادی بڑھے تو اس کی نشستوں میں اضافے کے مطالبے سامنے آتے ہیں لیکن ان بارہ نشستوں میں اضافے کی بات نہیں ہوتی۔ ان نشستوں کو ختم کرنے کے بجائے انتخابات کے عمل کو صاف شفاف بنانے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے اور یہ کام اس کا ہے جو مظفرآباد میں حکومت کر رہا ہے۔ جعلی ووٹر لسٹیں بنتی ہیں تو الیکشن کمیشن ذمہ دار ہے۔ ان نشستوں کو ختم کر دیا جائے تو مسئلہ کشمیر کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے۔ پھر کونسا کشمیر۔ آپ تو آزاد بیٹھے ہیں، بسم اللہ کریں اور پنجاب میں شامل ہو جائیں۔ پتہ ہے آپ کی آبادی کتنی ہے۔ 4.4 ملین یعنی 44 لاکھ اور اس میں قومی اسمبلی میں آپ کے حصے میں 4 سے لے کر 8 نشستیں آئیں گی۔ ہر ضلع میں جو جھنڈے لگا کر گھومتے ہیں ان میں صرف ایک بندے کو اسمبلی میں لایا جائے گا اور آبادی کے تناسب سے شاید ایک دو کو وزیر بھی بنا دیا جائے۔ آپ کو علم ہے کہ لاہور اور راولپنڈی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کیا ہے، ذرا اعدادوشمار کو کھنگال لیں۔ یہ مقبوضہ کشمیر اور مہاجرین مقیم جموں و کشمیر کا فیض ہے کہ آپ حکومت بنا کر پاکستان کی ریاست میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ ویسے ایک معصومانہ سوال ہے کہ آپ نے کبھی پاکستان سے یہ کہا ہے کہ مہاجرین کو ہم آزاد کشمیر میں بسانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وسائل مہیا کیے جائیں، آپ تو 1988-89 میں آنے والے مہاجرین کو گھر نہیں دے سکے۔ اس کو ایک دوسرے زاویے سے سمجھیں کہ کیا میرپور سے برطانیہ جا کر شہریت حاصل کرنے والے کشمیری نہیں رہے۔ پھر ان کے گھر بار پر قبضہ کر لیں۔ آزاد کشمیر کی آزادی کے بعد یہ اصول طے ہوا تھا کہ اگر وزیراعظم آزاد کشمیر سے ہو گا تو صدر ریاست مہاجرین سے ہو گا مگر اس اصول کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ موثر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے مہاجرین کی ملازمتوں کے حق پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے اور ان کی یہ نشستیں ملی بھگت سے ختم ہو رہی ہیں یا اس کی تعداد کو کم کیا جا رہا ہے۔ اس کام میں آزاد کشمیر کی انتظامیہ جتی ہوئی ہے۔ جعلی اسٹیٹ سبجیکٹ ہم نے نہیں بنائے آپ لوگوں کی عطا ہیں اور ہمارے حق پر ڈاکا ڈالنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ نارووال، سیالکوٹ، گوجرانولہ، لاہور اور راولپنڈی میں بے شمار ایسے کشمیری خاندان موجود ہیں جنہیں ووٹر بنایا گیا اور نہ ہی ان کے پاس اسٹیٹ سبجیکٹ ہے۔ ہم سب پاکستان میں اسی طرح ملازمت اور کاروبار کر رہے ہیں جس طرح آزاد کشمیر کے لوگ۔ اپنی محنت سے آگے بڑھے ہیں اور ہر شعبہ زندگی میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ خدا کے لیے ہمیں تقسیم نہ کریں اور جہاں خرابی ہو رہی ہے اسے ختم کریں۔ ان بارہ نشستوں پر منتخب ہونے والوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ حکومت کو بنانے اور گرانے میں وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ موجودہ اسمبلی میں شامل وزیروں کے پاس اس سے پہلے کون سی وزارت تھی اور ان کا تعلق کس جماعت سے تھا۔ ویلی کی ایک نشست کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا نمائندہ چند سو ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ ویسے کیا آزاد کشمیر میں منتخب ہونے والا بھی پاکستان میں ایک کونسلر جتنے ووٹ حاصل نہیں کرتا۔ ویلی کی یہ نشست ایک علامت کے طور پر رکھی گئی ہے اور اس کو ہمیشہ جواز کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔ جہاں تک ان اراکین اسمبلی کو دیے جانے والے فنڈز کی بات ہے تو اس کا حساب لیا جانا چاہیے کہ یہ کہاں خرچ ہوتے ہیں اور ان کی کونسی اسکیمیں منظور ہوئیں وہاں کوئی ترقیاتی کام ہوا یا ان کی جیبوں میں گئے۔ ایک ایک پائی کا حساب لیں تاکہ انہیں بھی ووٹرز کی قدر کا پتہ چلے۔ 
آپ کی حکومت اور اسمبلی گلگت بلتستان کو تو نمایندگی دے نہ سکی اور جموں اور ویلی کو جو علامتی نمائندگی حاصل ہے اسے ختم کرنے کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ آپ بہت سادہ ہیں یا قوم کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، اس کا فیصلہ خود کر لیں۔ جموں و کشمیر ایک وحدت کا نام ہے اور ہم مہاجرین جموں و کشمیر اس کی علامت ہیں۔
اور آخر میں اقبالؒ کا اک شعر
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

مصنف کے بارے میں