شہباز شریف اور پرویز الٰہی کے لیے ایک سوال!!!

شہباز شریف اور پرویز الٰہی کے لیے ایک سوال!!!

ملک میں لاقانونیت کے کنٹرول سے باہر ہو جانے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بے بسی کی تصویر بنے رہنے کی وجہ سے ایک طرف تووارداتیوں نے روائتی جرائم کی بھرمار کر رکھی ہے تو دوسری جانب جدید طریقوں یعنی انٹرنیٹ اور موبائیل فون وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے سائبر کرائم کے ذریعے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔لیکن کچھ عرصہ سے وارداتیوں کی ایک تیسری کیٹیگری بھی وجود میں آ چکی ہے جو مذکورہ بالا دونوں طریقوں کی آمیزش کر کے جرائم کرنے میں مصروف ہے۔ 
چند ماہ پہلے ایک دوست کی مہنگی گاڑی چوری ہو گئی۔ پریشانی کے عالم میں انہوں نے فوری طور پر اس کی ایف آئی آر بھی درج کروا دی لیکن وہ پولیس کے رویہ سے خاصے دلبرداشتہ اور مایوس نظر آئے۔ کچھ ہی دن بعد معلوم ہوا کہ چوروں نے دوست سے رابطہ کیا ہے اور گاڑی کی واپسی کے لیے ایک معقول رقم کا مطالبہ کیا ہے۔ 
تذبذب اور بے یقینی کا شکار ہمارے دوست صاحب نے اس بات کا ذکر پولیس کے اعلیٰ حکام سے کیا۔ جس نمبر سے کال آئی تھی اس کی لوکیشن کو تلاش کیا گیا تو معلوم ہے کہ کالر مردان کے کسی علاقہ میں موجود ہے۔ دوست صاحب چونکہ خاصے اثر رسوخ والے تھے تو انہوں نے یہ سوچتے ہوئے کہ چلو اگر پیسے دینے ہی ہیں تو کوئی نا کوئی ضامن تو ہونا چاہیے، مردان کی ہی ایک بااثر شخصیت کو معاملا میں ملوث کر لیا۔  جس پر چور صاحب بہت برا منا گئے اور انتہائی غصہ میں دوبارہ فون کیا اور کہنے لگے کہ تم نے مجھ پر بے اعتباری کی ہے اس لیے اب تم دو لاکھ روپے زائد ادا کرو گے۔ تمام تر منت سماجت کے بعد بھی وہ نا مانا تو بادلنخواستہ چور پر اعتبار کرنے اور رقم ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک سے زائد ایزی پیسہ اکاونٹس میں رقم ادا کی گئی اور کچھ روز بعد چوری شدہ گاڑی صحیح سالم حالت میں مل گئی۔ گاڑی ملنے کی تصدیق کے لیے چور صاحب نے ایک مرتبہ پھر فون کیا اور کہنے لگا کہ اپنے دوستوں اور واقف کاروں کو بتائیں کہ اگر ان کی گاڑی چوری ہو جائے تو ایف آئی آر وغیرہ کے چکر میں پڑنے کے بجائے فون کال کا انتظار کریں کیونکہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد واپسی کا ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ 
گزشتہ روز مجھے بھی ذاتی طور پرکچھ ملتی جلتی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ صبح تقریباًچار بجے بیگم صاحبہ نے جگایا اور کہنے لگیں کے لائٹ نہیں آ رہی 
اور یو پی ایس بھی بجھ چکا ہے۔ میں نے کہا کہ دن چڑھنے دو پھر دیکھتے ہیں۔ کچھ روشنی ہونے بعد میں نے تفتیش شروع کی سب سے پہلے چیک کیا کہ آیا صرف ہماری لائٹ نہیں آ رہی یا پورے علاقہ کی لائٹ بند ہے۔ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ مسلہ صرف ہمارا ہے تو سرکٹ بریکر وغیرہ چیک کیے وہ بھی ٹھیک پائے۔ سولر کے انورٹر سے ساتھ لگے بریکر چیک کیے وہ بھی ٹھیک تھے۔ پھر اچانک یاد آیا کہ گرین میٹر لگانے والوں نے ایک بریکر میڑ کے ساتھ بھی لگایا تھا۔ وہ چیک کرنے گھر سے باہر پول پر گیا تو دیکھ کر تعجب ہوا کہ میڑ ہی غائب تھا اور کٹی ہوئی تار کے ساتھ ایک پرچی لٹک رہی تھی جس پر ایک موبائیل نمبر کے ساتھ درج تھا کہ صرف واٹس اپ پر رابطہ کریں۔ سوچا کہ شائد لیسکو والے کسی وجہ سے میٹر اتار کر لے گئے ہوں گے۔  دس بجے کے قریب متعلقہ سب ڈویژن پہنچا تومعلوم ہوا کہ ابھی تک کوئی بھی افسر نہیں آیا اور نہ ہی عنقریب ان کے آنے کا امکان ہے۔ 
سب ڈویژن میں مجھ سے پہلے موجود کچھ احباب نے بتایا کہ گزشتہ رات کوئی ان کا بجلی کا میٹر چوری کر کے لے گیا ہے مجھے یقین ہو گیا کہ میرا بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے۔ ان تمام احباب کو بھی اسی قسم کی پرچی ملی تھی۔ واٹس اپ نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تو نمبر بند پایا گیا۔ خیر اس نمبر پر وائس میسج بھیجا کہ بھائی صاحب کیا مسئلہ ہے ہمارا میڑ کیوں لے گئے ہیں۔ تقریباً بارہ بجے اس نمبر سے جواب آیا جس میں بتایا گیا تھا کہ ہمارا بجلی کا میٹر چوری ہو چکا ہے اور اگر ہم اسے واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بیس ہزار روپے بذریعہ ایزی پیسہ ادا کرنا ہونگے۔ 
بیگم صاحبہ اس صارتحال پر خاصی برہم تھیں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ ان چوروں کو دو پیسے بھی نہیں دینے بس آپ اس مسئلہ کے حل کے لیے قانونی راستہ اختیار کریں۔ میں بھی اسی حق میں تھاسو ایک مرتبہ پھر سے متعلقہ سب ڈویژن پہنچا تاکہ کوئی قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔ ایس ڈی او صاحب سے ملاقات تو ہو گئی لیکن انہوں نے میرا مسئلہ کسی اور اہلکار کے حوالہ کر دیا۔ اس اللہ کے بندے نے جو طریقہ بتایا اس کے مطابق مجھے بل کی وہ ادا شدہ کاپی درکار تھی کہ جس پر بنک کی مہر لگی ہو،(آن لائین ادائیگی قابل قبول نہ تھی) پھر ایس ڈی او کے نام ایک تحریری درخواست دی جائے۔ ایس ڈی او صاحب یہ درخواست لائین سپریٹنڈنٹ کو مارک کریں گے اور وہ صاحب وقوعہ کی تصدیق کے لیے اپنی سہولت کے حساب سے کسی وقت موقع ملاحظہ کرکے اپنی رپورٹ دیں گے، پھر اس رپورٹ کی روشنی میں ایس ڈی او صاحب ایف آئی آر درج کروانے کی اجازت دیں گے۔ وہ رپورٹ لے کر ہم متعلقہ تھانہ جائیں گے اور ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کریں گے، کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایف آئی آر لے کر ہم ایک مرتبہ پھر سے سب ڈویژن جائیں گے اور وہاں اپنا کیس جمع کروا دیں گے۔ اس کے بعد سب ڈویژن ہمیں ایک ڈیمانڈ نوٹس جاری کرے گا جو نیشنل بنک میں جمع کروانا ہو گا۔ اور ادا شدہ ڈیمانڈ نوٹ کی کاپی ایس ڈی اور صاحب کے حضور پیش کرنے کے بعد کہیں جا کر دوسرا میڑ لگنے کی کاروائی شروع ہو گی اورنیا میٹر بھی صرف اسی صورت میں لگ سکے گا کہ اگر یہ سب ڈویژن کے سٹور میں موجود ہو(یہ تو عام میٹر لگنے کا طریقہ کار تھا۔ گرین میٹر یعنی سولر کا نیا میڑ لگوانے کا طریقہ کار تو اس سے بھی زیادہ طویل اور پیچیدہ ہے)۔ یہ تمام کارروائی تو وہ ہے جو قانونی طریقہ سے کرنی ہے اس کے علاوہ تھانہ اور سب ڈویژن کی سطح پر رشوت کی معاملات علیحدہ ہیں۔ 
قانونی طریقہ سننے کے بعد میں گھر لوٹا بیگم صاحبہ سے معذرت کرکے چور کے ساتھ سودے بازی کی اور اپنے ہی میڑ کے حصول کے لیے مبلغ دس ہزار روپے سکہ روئج الوقت ادا کر کے میڑ بازیاب کروایا اور پھر ایک معقول رقم دے کر کر اس کو دوبارہ لگوایا۔ اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مسٹر چور نے دوران گفتگو وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کبھی بھی اس میڑ کو دوبارہ چوری نہیں کرے گا۔ 
ویسے توہمارے سسٹم اور قانون کی عملداری کی جو حالت ہے اس میں قانون شکنوں اور وارداتیوں کا طاقتور اور بے لگام ہونا ہی بنتا ہے لیکن میرا سوال ہے میاں شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی سے کہ اگر ہم جیسے آواز رکھنے والوں کا یہ حال ہے توعام آدمی کو روزمرہ کے معاملات میں کس قدر دشواری کا سامنا ہو گا۔ہمارے موجودہ حکمران جو صرف اپنا اقتدار بچانے کے لیے تمام تر وسائل اور توانائیاں صرف کیے ہوئے ہیں ان سے درخواست ہے کہ کچھ توجہ عوام کی بہبود اور ان کے تحفظ پر بھی دیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان قانون شکنوں کی رسی اس قدر دراز ہو جائے کہ پھر انہیں کنٹرول کرنا ممکن نہ رہے۔