میں تسلیم کرتا ہوں کہ عمران خان نے غلطی کی

 میں تسلیم کرتا ہوں کہ عمران خان نے غلطی کی

 کچھ ذاتی حالات اور کچھ وی لاگرز کی بھرمار کی وجہ، سے حالاتِ حاضرہ بارے تحریر کرنے سے گریز کرتا رہا۔ مگر آج محسوس کیا کہ حواسِ خمسہ اور ضمیر کے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کے لیے اپنے قارئین کی خدمت میں حاضری لگوانا ضروری ہے ویسے بھی ممنون ہوں ان قارئین کا جو اکثر ملاقات پر یا فون پر اصرار کرتے ہیں کہ کم یا زیادہ کچھ کچھ اپنا حصہ ضرور ڈالتے رہیں۔
آج میں نے سوشل میڈیا پر ایک کلپ دیکھا جس سے بہت تکلیف ہوئی اور کاغذ قلم کو جنبش دینے بیٹھ گیا۔ کلپ بھارتی میڈیا سے تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ حکومت بالکل بے بس ہے ملک ملک جا کر قرض مانگ رہے ہیں اور کوئی دینے کو تیار نہیں۔ یہاں تک کہ چین جس پر پاکستان کو بہت مان تھا اس نے بھی انکار کر دیا ہے اور بھارتی حکومت سے آئین کے آرٹیکل 370اور 35-A ختم کرنے کے بعد جو اکڑ دکھاتے ہوئے کاروباری تعلقات منقطع کر دیے تھے، اب موجودہ حکومت نے کہا ہے کہ ہم بھارت سے کاروباری تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں اور بھارت کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہی ہے۔ حالانکہ اس وقت بھارت میں پاکستان کی نسبت زیادہ افلاس اور بے روزگاری ہے۔
محترم و معزز قارئین! اب بہت ہو چکی ہے۔ میں آج تسلیم کرتا ہوں کہ عمران خان نے غلطی کی۔ اس کا تاریخ کا مطالعہ ہے مگر اس ضمن میں پاکستان کی تاریخ کو یکسر نظرانداز کر گیا۔ حالاتِ حاضرہ کو بھی صحیح طرح سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی اور ملک کے اندر اور باہر ان طاقتوں سے محاذ کھول لیے، اور وہ بھی کھلم کھلا، جن کے پاس تحریری اور واضح نہیں مگر درپردہ ہماری مملکتِ خداداد کو چلانے کے سبھی اختیارات ہیں۔ تین سال اقتدار میں رہنے کے بعد عمران خان یہ سمجھ بیٹھا کہ وہ وزیراعظم ہے اور باقی تمام ادارے اس کے ماتحت ہیں یقینا آئین و قانون میں ایسا ہی تحریر ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کو یہ بھی زعم ہو گیا تھا کہ اس نے ملک پاکستان کو تنہائی سے نکال کر بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ہم لوگ عمران خان کے دورِ حکومت میں حزبِ اختلاف کے قائدین کے ٹاک شوز سن کر یہ سوچتے تھے کہ ملک قرض کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اورمہنگائی واقعتاً بین الاقوامی مہنگائی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ اور ہمیں بھی شوق تھا کہ مسلم لیگ جو پیٹرول کو 75روپے فی لٹر کرنے کے دعوے کر رہی ہے، بجلی کی بھرمار کرنے اور سستی کرنے کے علاوہ غریب آدمی کی زندگی کو آسان کرنے اور اپنی تجربہ کاری سے ملکی معیشت کو راکٹ کی سپیڈ سے اوپر لے جانے کا دعویٰ کر رہی ہے واقعتاً کرے گی۔ مگر ایک تو یہ سوچ اور ہماری غلط فہمی موجودہ اتحادی حکومت کے دو ماہ میں دور ہو گئی، دوسری بڑی غلط فہمی اس وقت دور ہو گئی جب اسی اتحادی حکومت کے اداروں نے اعداد و شمار جاری کیے کہ پچھلے دو سالوں میں ملک میں ترقی کی شرح پچھلی کئی دہائیوں سے بہتر رہی۔ اس سے قبل اتنی ترقی 2004-5 میں مشرف کے دور میں ہوئی تھی جس کا سبب یہ تھا کہ ہم ان کی جنگ لڑرہے تھے تو اس وقت بیرون ملک سے بہت پیسا آرہا تھا۔پی ٹی آئی حکومت کے تیسرے سال ترقی کی شرح 5.74 تھی، جب کہ رواں سال اس میں مزید اضافہ ہوا اور 5.97 فی صد پر پہنچ گئی۔ ملکی دولت میں اضافہ ہوا، ملک ترقی تب کرتا ہے جب اس کے پاس پیسا خرچ کرنے کے لیے آتا ہے، گذشتہ حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ریونیو میں اضافہ کیا،یعنی 6 ہزار 100 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا گیا، جب کہ ایکسپورٹ بھی 32 ارب ڈالر تک چلی گئی، اس سے قبل ایکسپورٹ میں کمی ہورہی تھی۔
اوورسیز نے پی ٹی آئی دور میں سب سے زیادہ ترسیلات 31 ارب ڈالر بھیجیں، ترسیلاتِ زر اس لیے بڑھیں کیوںکہ اوورسیز پاکستانیوں کا عمران خان پراعتماد تھا۔ زرعی پیداوار دگنی بڑھی، زرعی پیداوار میں 4.4 فی صد اضافہ ہوا، کسانوں کے پاس درست طریقے سے پیسا گیا، اس سے قبل شوگر مافیا وقت پر کسانوں کو پیسا نہیں دیتا تھا اور نہ پورا پیساپہنچتا تھا، کسانوں کے پاس ریکارڈ پیسا گیا تو ریکارڈ زرعی پیداوار ہوئی ہے۔
گذشتہ حکومت میں انڈسٹری 7.2 فی صد بڑھی، جب کہ لارج سکیل گروتھ 10.6 فی صد ہوئی جو ایک ریکارڈ ہے، ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا، سروسز سیکٹر میں 6.2 فی صد اضافہ ہوا۔
عمران خان حکومت میں ڈیم کے 10 منصوبے بنائے گئے جن میں 3 بڑے منصوبے ہیں۔ ن لیگ دور میں امپورٹڈ فیول اور امپورٹڈ کوئلے پر پاور پلانٹ لگائے گئے، اب عالمی سطح پر تیل اور کوئلے کی قیمتیں بڑھنے کی وَجہ، سے بجلی مہنگی ہوگئی۔
2021میں نہ صرف ایکسپورٹ ریکارڈ ہوئی بل کہ ترسیلاتِ زر بھی ریکارڈ حد تک وصول ہوئیں اور اندرونِ ملک ٹیکس محصولات بھی پچھلے سالوں سے کہیں زیادہ ہوئیں۔ اناج کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا اور مہنگائی دیگر ممالک کی نسبت باوجود وبائی امراض سے نبردآزما ہونے کے کم رہی۔ یقینا ان باتوں کا بھی عمران خان کو علم تھا اور اس زعم میں چندعاقبت نااندیش ساتھیوں کی خوشامد میں وہ ان مقتدر حلقوں کے سامنے کھڑا ہو گیا جن کے لیے ملکی ترقی، عام آدمی کی آسانیاں اور بین الاقوامی حلقوں میں پاکستان کی سربلندی اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی ملک کے اندر ان کی رِٹ قائم رہنے کی اہمیت ہے۔ لہٰذا نہ صرف عمران خان کو آج کا دن دیکھنا پڑا بلکہ پوری پاکستانی قوم کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑا جو شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں پیدا ہوئے ہوں۔ آج ملکی معیشت تیزی سے تنزلی کی حدیں عبور کر رہی ہے، غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ بین الاقوامی طور پر پاکستان جو چند ماہ پہلے درخشندہ ستارے کی طرح تھا، آج تنہا ہو کر رہ گیا ہے، بھارت جیسے ملک ہم پر طنز کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے مخلص دوست چین سے دور کر دیا گیا۔ اللہ نہ کرے، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا بہادر نے اپنے پرانے ٹارگٹ کے حصول کے لیے جن کرائے کے غداروں کو اختیارات لے کر دیے ہیں وہ اسے کامیابی کے بہت نزدیک لے آئے ہیں۔
میں مقتدر حلقوں سے اور مخلص سیاسی شخصیات سے یہ کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ سمندر میں طوفانی لہروں کا مقابلہ کرتی اس کشتی کو غرق کرنا چاہ رہے ہیں جس میں وہ خود سوار ہیں۔ انھیں اقتدار کے نشے میں اس بات کا اندازہ نہیں کہ کشتی ڈوبنے سے وہ خود بھی ڈوب جائیں گے۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ امریکا خودغرض ملک ہے جس نے بے شمار ممالک میں اپنے کارندے پیدا کیے، ان سے کام لیا اور ان کو ختم کر دیا۔ ہمارے مقتدر بااختیار حلقوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس ٹگ آف وار کو دانشمندی سے ختم کر کے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا ، یہ بات ان حلقوں کو بھی سمجھانے یا بتانے کی اس لیے ہے کہ انھیں اس بات کا علم نہیں صرف احساس دلانے کی بات ہے کہ کہیں انا اور میں کی لڑائی میں وقت ہاتھ سے نہ نکل جائے اور پھر ہم دیکھتے ہی رہ جائیں۔ یہ سبھی لڑائیاں عیاشیاں، راحتیں پاکستان سے ہیں۔ ہماری ذات سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں، صرف پاکستان سے دشمنی کے چکر میں چند عاقبت نا اندیش تلاش کر کے انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سینے سے لگایا جاتا ہے جنھیں بعد میں استعمال شدہ ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہمارے سامنے تازہ ترین مثال جنرل مشرف کی ہے جنھیں امریکا نے آنکھوں کا تارا بنائے رکھا اور آج صرف علاج کے لیے امریکا جانے کے لیے ویزا دینے سے انکار کر چکا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں پکا، سچا، باغیرت مسلمان بننے اور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مصنف کے بارے میں