پاکستان بنگلہ دیش سے سیکھے

پاکستان بنگلہ دیش سے سیکھے

مار دھاڑ، چیخم پکار، ڈالر کے ساتھ ساتھ پٹرول کی قیمتوں کی اونچی سے اونچی پرواز کے دوران، لیجئے صاحب اس مالی سال کا بجٹ آ ہی گیا۔ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کے باوجود مخلوط حکومت نے اپنے بجٹ کا حجم سابقہ بجٹ سے زیادہ رکھا ہے۔ مالی سال 2022ء کے مقابلے میں اس بجٹ کا حجم تقریباً 1000 ارب روپے زیادہ ہے۔ پچھلے بجٹ میں ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 5829 ارب روپے تھا جسے بعد میں 6000 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا مگر اس بجٹ میں ٹیکس ہدف 7004 ارب ہے۔ گزشتہ بجٹ میں جی ڈی پی کی شرحِ نمو کا ہدف4.8 فیصد تھا مگر اکنامک سروے کے مطابق شرحِ نمو 5.97 تک پہنچ گئی اس بجٹ میں جی ڈی پی کی نمو کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا ہے جبکہ افراطِ زر کا تخمینہ جو مالی سال 22ء کے بجٹ میں 8.2 فیصد تھا مگر عملاً مہنگائی کی شرح تیرہ فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے، اس بجٹ میں شرح ساڑھے گیارہ فیصد لگایا گیا ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے مختص رقم میں بھی 29 فیصد کا غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر رواں مالی سال کی برآمدات سے قریب پانچ ارب ڈالر زیادہ ہے جبکہ درآمدات کے ہدف کو کم نہیں کیا گیا۔ ان شماریات کی روشنی میں حکومت اپنے اس بجٹ کو ضرور متاثر کن قرار دے سکتی ہے اور یہ نعرہ بھی لگا سکتی ہے کہ نچلے طبقے کو ریلیف دیا گیا اور زیادہ بوجھ اونچے طبقے پر ڈالا گیا مگر کھانے کے تیل پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس اور 30روپے فی لیٹر کے حساب سے لیوی کی وصولی ان اشیا کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا سبب بنے گی جس کا زیادہ بوجھ کم آمدنی والے طبقے ہی پر پڑے گا۔ بجٹ کا خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور گندم، کینولا، سورج مکھی اور چاول کے بیج کی فروخت پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ بجٹ کا ایک اور مثبت نکتہ ملک میں ری نیو ایبل انرجی کے فروغ کیلئے سولر پینلز کی فروخت پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ اور چھوٹے صارفین کو سولر انرجی کے سسٹم کیلئے بینکوں سے قرض دلانے کا منصوبہ ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر ری نیو ایبل انرجی ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے توانائی کی لاگت اور تھرمل انرجی کی کھپت پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں سورج کی روشنی تقریباً سال بھر دستیاب رہتی ہے مگر شمسی توانائی کی جانب رجحان کم ہے اگر حکومت اس سلسلے میں تعاون کرے تو شمسی توانائی کا رجحان نمایاں طور پر بڑھ سکتا ہے۔ زرعی مشینری پر ٹیکس میں چھوٹ کی بدولت زرعی شعبے پر بہتر اثرات کی امید کی جا سکتی ہے مگر اس سلسلے میں یہ اِشکال بہر حال موجود ہے کہ جب تک کھادوں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی نہیں آتی اور زرعی قرضوں کے حجم میں اضافہ نہیں ہوتا صرف مشینوں پر ٹیکس میں کمی زرعی انقلاب کا خواب پورا نہیں کر سکتی۔ مالی سال 22ء کی شرح نمو میں اضافہ جن صنعتوں کا مرہونِ منت ہے زراعت ان میں سے ایک ہے مگر ہماری زراعت ہمیشہ بھرپور 
حکومتی سرپرستی سے محروم رہی ہے۔ جب تک زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے جامع حکمت عملی بروئے کار نہیں آتی زراعت اپنے بھر پور پوٹینشل کے ساتھ نتائج نہیں دے سکتی۔ صنعتی شعبے کی پیداوار کے لیے بھی یہی مسائل ہیں کہ بظاہر حکومتی بیانات بڑے پُرجوش اور حوصلہ افزا معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی افادیت بڑی حد تک سامنے نہیں آ پاتی۔ چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کیلئے یہ مسئلہ بطورِ خاص ہے کیونکہ بڑی صنعتوں کی طرح یہ درمیانہ اور نچلا شعبہ ٹھوس حکومتی توجہ کے بجائے صرف دلاسوں سے ٹرخایا جاتا ہے۔ آئی ٹی کی تعلیم یافتہ نوجوان نسل ملک کو اس اُبھرتے ہوئے شعبے میں ترقی کی بلند منزلوں تک لے جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کیلئے درکار سہولتیں مہیا کی جائیں۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران آئی ٹی کی برآمدات قریب دو ارب ڈالر رہیں جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں قریب 30 فیصد زیادہ تھیں جبکہ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات کو 10ارب ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔ اس کیلئے مسلسل اور بھر پور حکومتی توجہ اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ اگر مالی سال 22ء کے پہلے نو ماہ کے دوران آئی ٹی کی برآمدات ایک سال پہلے کے مقابلے میں قریب 30فیصد زیادہ رہی ہیں تو آئندہ مالی سال کے اس عرصے میں یہ اضافہ کم از کم 50 فیصد تک ہونا چاہیے۔ جب تک حکومت اور متعلقہ ادارے اس سلسلے میں واضح اہداف متعین نہیں کرتے اور ان اہداف کے حصول کو چیلنج سمجھ کر کام نہیں کیا جاتا ملک کے دیگر اہم شعبوں کی ترقی آئی ٹی کے شعبے میں بھی کارکردگی صلاحیت کے مقابلے میں غیر معمولی حد تک کم رہے گی۔ بجٹ کے شماریات اپنی جگہ مگر ان اہداف کا حصول حکومت کیلئے اصل چیلنج ہے۔ خاص طور پر مہنگائی کو قابو میں رکھنا اور نمو بڑھانا دو ایسے چیلنجز ہیں جن کیلئے حکومت کو بہت کوشش کرنا پڑے گی۔ حکومت کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ان حالات میں تنقیدی سیاست میں اُلجھنے اور ناکامیوں کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈالنا قطعی مناسب حکمت عملی نہیں۔ حکومت کو صحیح معنوں میں اپنے کام پر توجہ رکھنا ہو گی کچھ اس لیے کہ اس کے پاس وقت کم ہے اور کچھ اس لیے کہ سامنے چیلنج بہت بڑا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جس پائیدار اور مستحکم نمو کی بات کرتے ہیں وہ صرف انہماک سے کام کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہے، سابقہ حکومتوں پر تنقید کرنے اور سیاسی بیان بازی سے ہرگز نہیں۔ ہمارے صاحبِ اقتدار لوگ معیار ِ زندگی کی بات کرتے ہیں۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس ملک میں دوہرا معیارِ زندگی پنپ رہا ہے؟ ایک طرف عوام ہیں جو جانتے بوجھتے غیر معیاری خوراک کھانے پہ مجبور ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جو دودھ ہم استعمال کر تے ہیں کیمیاوی مادوں سے تیار کیا جا رہا ہے؟ مگر دوسری جانب اس ملک کی اشرافیہ ہے، جسے آلو، پیاز، گوشت، گھی اور اجناس وغیرہ کی قیمتوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ان کے لیے یہ کہنا کہ اس سال گرمی بے مثال طور پر حد درجہ زیادہ پڑ رہی ہے، اور یہ کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بارہ گھنٹے روزانہ سے زیادہ ہو چکا ہے، بے معنی سے جملے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے تو باتھ رومز تک جنریٹروں کے زور پر چلنے والے ائیر کنڈیشنروں سے مزین ہیں۔ یہی صورتِ حال کچھ عرصہ پہلے تک ماضی کے مشرقی پاکستان، یعنی آج کے بنگلہ دیش میں دیکھنے کو مل رہی تھی۔ مگر پھر وہاں کے اجتماعی سیاسی شعور نے انقلابی اقدامات کیے اور اب ہمارے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ بنگلا دیش کی ماضی قریب کی مثال سامنے رکھتے ہوئے تمام سرکاری دفاتر اور سرکاری گھروں سے اے سی اتارے جائیں اور سرکاری گاڑیاں لے لی جائیں۔ دوسرے شہر میں جانا ہو تو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ بیرونِ ملک مفت علاج بند کر کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولت دی جائے۔ جج، جرنیل، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ممبران قومی اسمبلی سب صرف تنخواہ پر گزارا کریں۔ ان کی اولادیں سرکاری سکولوں میں پڑھیں۔ سرکاری ریسٹ ہاؤس نیلام کر کے پیسے سرکاری خزانے میں جمع کرائے جائیں۔ جس کو اختلاف ہے اس کو گھر بھیج کر اس کی پنشن بھی ضبط کر لی جائے۔ اب پاکستانی عوام کا موجودہ اجتماعی سیاسی شعور یہ سب کرا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ طاقت کے مراکز اور مضبوط ایوانوں کو سوچنے پر مجبور کر دے اور ان کے سوئے ہوئے ضمیروں پر یہ الفاظ ہتھوڑے بن کر برسیں۔

مصنف کے بارے میں