ظلمت رات کی…!

ظلمت رات کی…!

پوٹن اکیسویں صدی کا ہٹلر بن کرروسی گم گشتہ سلطنت دوبارہ حاصل کرنے کو قطبی بھنور بنا، ناگہانی بلابن کر یورپ پر ٹوٹ پڑا ہے۔ یوکرین، نیٹو امریکا کو مدد کے لیے پکارتا رہ گیا۔ روس کی مذمت اور یوکرین کو لارے لپے کے سوا حقیقی مدد انہوںنے فراہم نہ کی۔ یوکرین صدر اور وزیر خارجہ دکھ بھرے طعنے دیتے رہ گئے۔ ’نیٹو اتحاد، روس کے سامنے بھیگی بلی بن گیا۔‘ امریکا نیٹو کی کمر 20 سالہ افغان جنگ کی مار اور اخراجات کے ہاتھوں ٹوٹ چکی، وہ کچھ کہنے کے قابل بھی نہیں۔ یہی دیکھ لیجیے کہ امریکی فوجیوں پر اب سے لے کر 2050ء تک 2 کھرب ڈالر خرچ ہوگا، اخراجات مابعد جنگ کے زمرے میں۔ 465 ارب ڈالر تو افغانستان سے معذور ہوکر آنے والے فوجیوں پر خرچ ہوچکے۔ مزید روس سے الجھنے کی سکت بڑے چودھری صاحب میں کہاں! تاہم یوکرین کے خلاف جنگ میں دنیا کی مہذب ترین اقوام (بزعمِ خود) کے چہرے کا نقاب فوراً ہی اتر گیا۔ ’انسانیت‘ کے بہی خواہوں کی نسلی برتری کا خمار میڈیا میں خبث باطن بن کر پھوٹ پڑا۔ صحافی معاشرے کا باشعور طبقہ سمجھے جاتے ہیں۔ جنگوں کی کوریج کرنے والے، جنہوںنے دنیا دیکھی ہوتی ہے، ان سے وسعت نظر اور حساسیت کی توقع رکھی جاتی ہے۔
 یوکرین میں جنگی تباہی اور گورے یورپی نسل کے یوکرینیوں کو مرتا دیکھ کر نسلی تفاخر امڈ آیا۔ یہی رویہ اینکروں کے علاوہ ان ممالک کے منصب داروں کا بھی تھا۔ فرانس کے BFMTV  کا کہنا تھا: ’ہم اکیسویں صدی میں ہیں، ہم ایک یورپی شہر میں ہیں اور یہاں کروز میزائل یوں فائر کیے جا رہے ہیں گویا ہم عراق یا افغانستان میں ہوں! کیا آپ سوچ سکتے ہیں؟‘ عراق افغانستان پر مسلط کردہ خونخوار جنگ کیا اکیسویں صدی میں نہ تھی؟ CBS نیوز پر ارشاد ہوا: ’یہ شامی مہاجر نہیں ہیں۔ … یہ عیسائی ہیں، گورے ہیں یہ بالکل ہم ہی جیسے ہیں۔‘ ان قوموں نے (بلااسثناء سبھی مغربیوں نے اتنے ہی نسلی منافرت بھرے جملے سرعام کہے ہیں۔) بہرطور یہ ثابت کردکھایا کہ یہ گلوبل حکمرانی کے لیے کتنے نااہل ہیں۔ جابجا ایسے الفاظ BBC پر بھی کہے گٔے: ’یہ نیلی آنکھوں سنہری بالوں والے ہیں، انہیں مرتا دیکھنا بہت مشکل ہے!‘ اگرچہ روس نے جب چیچن مارے تھے تو وہ کوہ قاف کے خوبصورت ترین شہزادے اور پریاں تھیں، یا افغانستان کے خوبصورت بچے اور نوجوان بھی گورے چٹے نیلی آنکھوں والے تھے۔ جن شامیوں پر قیامت ڈھائی وہ بھی رنگ روپ میں کچھ کم نہ تھے۔ صاف کہو، مسلمان کا مقدر راکٹ، میزائل مار کر پرخچے اڑتے قبرستان آباد کیے چلے جانا ہے گورا ہو گندمی یا کالا۔
خود یوکرین میں پناہ گزینوں کے ساتھ نسلی امتیاز کے بدترین مظاہر دیکھے جا رہے ہیں۔ سفید فام اور سیاہ فام کی لائنیں الگ بنواکر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے دگرگوں حالات انہی قیامتوں سے گزرکر بالآخر نبی صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق بالآخر سیدنا عیسیٰؑ تشریف لاکر جنت نظیر حق پر، شریعت پر استوار دنیا لوٹائیںگے۔  خوشنما نعروں اور اصطلاحوں کا فریب چھٹ جائے گا۔ آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش، اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی۔ وہی اسوۂ محمدؐ لوٹ کر حکمران ہوگا۔ یاد کیجیے فتح مکہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دینے کا عظیم اعزاز بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ خانہ کعبہ کے اندر جانے کے لیے اپنے ہمراہ سیاہ فام سیدنا بلالؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ کا انتخاب کیا۔ وہ منظر جس میں آپؐ کے زانوئے مبارک پر ایک طرف ہاشمی مطلبی ننھے جگر گوشے گورے چٹے حسن رضی اللہ عنہ ہیں، تو دوسری طرف سیاہ فام حبشی خدو خال والے اسامہ بن زیدؓ ہیں۔ آپؐ کی محبت پاش نظریں دونوں پر یکساں پھوار برسا رہی ہیں! گورے کو کالے پر عجمی کو عربی پر عملاً حقیقتاً ترجیح نہ دینے والا دین ہی آج بدقماش چودھریوں کے ظالمانہ نظام کی جگہ لینے کا حقدار ہے۔ دنیا کی آبادی کا 90 فیصد حصہ ان کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ رہا ہے۔ صرف ایک جھلک (ان گنت واقعات) عراق اور افغانستان میں امریکی نیٹو فوجیوں کی وحشت کی دیکھ لیجیے، جو 29 مارچ 2011ء میں ’گلوبل ریسرچ‘ میں شائع ہوئی بعنوان:’امریکی فوجیوں نے افغانستان میں معصوم شہریوں کا قتل کس طرح روا رکھا‘۔ طویل اذیت ناک کہانی کا مختصر سا حصہ پیش خدمت ہے: 15 سالہ گل مدین کی طرف پہلے گرنیڈ اچھالا (کیونکہ ظاہر یہ کرنا مقصود تھا کہ بچے نے امریکی فوجیوں پر گرنیڈ پھینکا تھا) اور پھر اس پر بلاسبب گولیاں برسا دیں۔ تفتیش کے لیے آنے والوں نے مقامی بزرگ کی عینی شہادت کے باوجود کہ گرنیڈ بچے نے نہیں فوجی مورلاک نے پھینکا تھا، مزید گولیاں مارنی ضروری جانیں کہ کہیں زندہ نہ ہو۔ پھر فوجی اس کے باپ کو لے آئے، جس کا کم عمر بیٹا خون کے تالاب میں پڑا تھا۔ امریکی فوجیوں نے اس قتل کا جشن مناتے ہوئے خون میں نہائی لاش کے ساتھ باپ کے سامنے ہی تصویریں کھنچوائیں۔گورے چٹے مقتول کو سر کے بالوں سے اوپر کھینچ کر گویا وہ شکارکردہ ہرن کی یادگار ہو۔ پلاٹون کا اسکواڈ لیڈ اسٹاف سارجنٹ گبز تھا، جس نے تیز دھار ریزر سے مردہ بچے کی انگلی کاٹی اور ہومز کو پہلا افغان شکار کرنے کی یادگار کے طور پر تھمائی۔ ہومز نے اسے سنبھال کر زپ لاک لفافے میں رکھا تاکہ سکھاکر محفوظ کرسکے۔ اس واقعے پر کسی قسم کی پرسش نہ ہونے پر، کمپنی کی عین ناک تلے درجنوں سپاہی ایک قاتل ٹیم کا کردار کھلے بندوں ادا کر رہے تھے۔ 
یہ مختصر ترین نامکمل کہانی صرف اس وحشت کی عکاسی کر رہی ہے، جو مسلمان بے گناہ شہریوں پر ڈٹ کر روا رکھی گئی، افغانستان، عراق، شام میں جابجا۔ اب مغرب بے اختیار بول پڑا ہے، گورے یوکرینی مرتے دیکھ کر! نئی نسل شاید نہیں جانتی وہ حقائق جو ایک جرمن تاریخ دان مری ایم گرہارڈ نے اپنی کتاب ’جب فوجی آئے…‘ میں لکھے ہیں۔ اس کے مطابق جرمنی کی جنگِ عظیم دوئم کی شکست کے بعد اتحادی فوجیوں کے ہاتھوں 20 لاکھ جرمن عورتیں عصمت دری کا نشانہ بنیں۔ یعنییہ گورے، امریکی روسی برطانوی فرانسیسی فوجی ہی تھے ! یاد رہے کہ یورپی امریکی، طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ (افغان) خواتین کے ساتھ عزت کا سلوک کریں!
8مارچ بھی اصطلاحی مغالطوں اور خوشنما نعروں کے پس منظر میں گھرا ایک لالی پاپ ہے جو حقوق، مساوات، آزادی کے نام پر عورت کو ایک دن کے لیے تھماکر اس کا تماشا بنایا جاتا ہے۔ جذباتی ہوکر رنگ برنگے اجڑے پھٹے بدترین حلیوں میں شتر بے مہار ایک میلا رچایا جاتا ہے۔ اسے فنڈ کرنے، ایجنڈا دینے والے ہاتھ بیرونی ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں بالعموم اور 2021ء میں بالخصوص اس آزادی کے شجرِ خبیثہ کے قومی پھل نہایت زہریلے اور کریہہ ثابت ہوئے۔ المناک سانحات نے پوری قوم کو لرزا کر رکھ دیا۔ خواہ نور مقدم، ظاہر جعفر کی خونچکاں داستان ہو۔ E-11 اسلام آباد کے جوڑے (ماورائے نکاح) کی شرمناک کہانی ہو یا ٹک ٹاکر کا مینار پاکستان پر نظریۂ پاکستان کے پرخچے اڑاتے ہوئے خود بھی نشانِ عبرت بن جانا۔ لاہور، بلوچستان، سندھ میں اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں بدترین ہراسمنٹ اور خودکشیوں نما قتل کے تمام اسکینڈل۔ مخلوط تعلیم، بے محابا آزادی کے ہاتھوں شادی کے وعدے پر گھر سے بھاگ کر بڑھتے پھیلتے اجتماعی زیادتی کے واقعات۔ داغدار معاشروں سے درآمد کردہ لنڈے کا بدبودار نعرہ: ’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘، گھروں خاندانوں کو اجاڑ رہا ہے۔ بے لگام فلمیں ڈرامے حیاباختگی کی جھاڑ جھنکار اُگا رہے ہیں۔
پاکستان میں سروے کے مطابق نماز پڑھنے والے 13 فیصد اور ڈرامے دیکھنے والے 54 فیصد ہیں۔
 رقص گاہوں میں اس انداز سے پائل چھنکی
 جس کی آواز  میںآوازِ اذاں  ڈوب گئی
 مسلمان عورت داؤ پر لگی ہے۔ اس کے تحفظ کی فکر اور اقدامات اہم ترین ضرورت ہے، ہنگامی بنیادوں پر۔ پدریت کو گالی بناکر عورت کو نورمقدم بنا دیا۔ ظاہر جعفر کا پورا کیس آزادی مارچ کا ایکسرے ہے۔ اسی کی سرگرم کارکن کم نصیب نور مقدم بھی تھی۔ ظاہر کا کہنا تھا کہ دونوں کا کھلا حد شکن تعلق دونوں کے والدین کے علم میں تھا۔ قاتل خود کسی نیک پاک کردار کا حامل نہ تھا۔ اس سانحے کے سبھی کردار کھلی آنکھوں سے نور مقدم کو وحشت ناک جنگل میں آتے جاتے دیکھ رہے تھے۔ انجام انہونا غیرمتوقع یوں بھی نہ تھا کہ ظاہر جعفر کے اعترافات اور بیانات اسے ’شیطان پرست‘ نوعیت کا ایک کردار دکھا رہے تھے۔ معاشرے کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان مرد طعنوں کے خوف سے مردانگی کی سیٹ خالی کرچکا۔ غیرت اور حیا کا تذکرہ شرمناک بن گیا۔ واقعی پردہ مرد کی عقل پر پڑ گیا۔ اٹھیے اور خاندانی نظام کو مضبوط ہاتھوں سے بحال کیجیے بچائیے۔ ذی وقار، حیادار عورت ہی معاشرے کو بقا اور ترقی دے سکتی ہے ورنہ انتشار اور بے راہ روی کے طوفان اٹھتے اور ملک وملت اجاڑتے ہیں۔ مساواتی سبز باغ میں ظاہر جعفر جیسے بھیڑیے پلتے ہیں۔ اس کا سدباب کیجیے۔

مصنف کے بارے میں