”بھائی لوگوں کا زیرو لینڈ“

”بھائی لوگوں کا زیرو لینڈ“

ایک ملک ”زیرو لینڈ“ کا باوا آدم ہی نرالا تھا اور بہت سی قباحتوں کے علاوہ ایک بڑی قباحت یہ تھی کہ وہاں مجلس شوریٰ اور حکومتی مشینری کے ہوتے ہوئے بھی پوری ریاست ایک محکمہ کے زیر کنٹرول تھی۔ گو کہ اس محکمہ کا اصل کام ریاستی سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا جس میں وہ اس حد تک ناکام ہوا کہ ریاست ہی دولخت ہو گئی لیکن اس کے کرتا دھرتاؤں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ خود کو عقل کل سمجھنے والا یہ ادارہ ہر اس کام یا محکمہ میں ٹانگ اڑاتا تھا جو اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا تھا جس کی وجہ یہ کہ ریاست کو دلیل، آئین و قانون اور مجلس شوریٰ کے بجائے اپنے طریقے سے چلانا چاہتا تھا۔ طاقت کے زور پر ریاست میں اس محکمے کا سچ ہی سچ ہے باقی سب سچ جھوٹ سمجھا جاتا تھا۔ اپنی سہولت کے مطابق مختلف اوقات میں یہ ادارہ مختلف سیاسی جماعتوں پر ہاتھ رکھتا اور انہیں ایوان اقتدار میں بھیجتا تھا اور جب چاہے اقتدار سے باہر نکال دیتا تھا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہ تمام حکومتی مشینری بشمول عدلیہ کو بھی استعمال کرتا تھا۔ اس کے باوجود بھی ”زیرو لینڈ“ کے کسی حاکم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ جبکہ یہ ادارہ تمام اخلاقی، آئینی و قانونی حدود کو پامال کرتے ہوے کئی دہائیوں تک براہ راست بھی ریاستی امور چلاتا رہا جس کا خمیازہ ریاست اور عوام کو بھگتنا پڑا۔
زیرو لینڈ میں عملی طور پر اقتدار کا مالک صرف یہی ایک محکمہ تھا جس کے کارندوں کو وہاں کے تمام ریاستی ادارے، عوام، دانشور، اشرافیہ، ابلاغ،
عدلیہ اور مذہبی رہنما ”بھائی لوگ“ کے نام سے جانتے تھے لیکن ان کا رعایا اور اشرافیہ سے حسن سلوک، کردار و رویہ برادران یوسف سے بھی بد تر تھا۔ بجائے اس کے کہ یہ ادارہ ریاست کو جوابدہ ہو یہ ریاست کی تمام مشینری بشمول عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ و زرائع ابلاغ کو کنٹرول کرتا تھا اور یہ ادارے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے سامنے کورنش بجا لانے پر مجبور تھے۔ گو کہ یہ سب کچھ ریاستی آئین و قانون کے خلاف تھا لیکن طاقتور ادارے کے سامنے سب بے بس تھے۔ جب چاہے جسے چاہے غائب کرنا، تذلیل کرنا اور تاریک عقوبت خانوں میں ڈالنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ”بھائی لوگ“ کوئی فرد یا افراد نہیں بلکہ ایک نکتہ نظر اور سوچ کا نام تھا جس کا مطلب وہ ریاست سے بھی اعلیٰ و ارفع ہیں اور سلطنت کے باقی ستون ان کے پاؤں کی جوتی برابر بھی نہیں۔ انہوں نے معاشرے میں پھیلے اپنے کارندوں کے ذریعے بڑے طریقے سے خود کو مقدس گائے کا درجہ دلا رکھا تھا اور ان پر تنقید ملک دشمنی کے مصداق سمجھی جاتی تھی۔ ریاست میں ان کا سچ ہی سچ ہوتا تھا اور باقی سب جھوٹ۔ یہ اپنی پروپیگنڈہ مشینری سے اپنے جھوٹ کو اتنا پھیلاتے تھے کہ سچ لگنے لگتا ہے کیونکہ دوسری ہر آواز دبا دی جاتی ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں بیان کیا گیا ہے کہ زیرو لینڈ کو دولخت کرنے کے بھی یہی ذمہ دار تھے لیکن ان سے یہ سوال یا آواز نہیں اٹھائی جا سکتی اور نہ ہی عدلیہ سمیت ان سے کوئی بھی سوال پوچھ سکتا تھا۔ گو کہ ”بھائی لوگوں“ کا اس ملک کے آئین و قانون میں مقام ریاست کے دیگر ملازمین کا ہے لیکن یہ
اتنے طاقتور ہیں کہ حکمران وقت اور سیاستدانوں سے لے کر قاضی القضاۃ اور شوریٰ بھی ان کی انگلیوں پر ناچتی ہے۔ یہ جب چاہیں جس کو مرضی اٹھا لیں، چلتا کریں یا غائب کر دیں تو ان کا شکار اُف بھی نہیں کرتا۔ داخلہ، خارجہ، ابلاغ، مقننہ، عدلیہ سمیت سب ادارے ان کے سامنے بے بس تھے۔ معاشرے میں موجود ان کی قربت یا ان کے اشاروں پر چلنے والے ہمیشہ ان کی جے جے کار کرتے ہیں۔ ان کی بے پناہ طاقت کی وجہ ہے کہ ابلاغ، اشرافیہ، خواص، سیاستدان اور حکمران ان کا نشانہ بننے کے باوجود بھی انہی کے در پر سجدہ ریز ہوتے ہیں کیونکہ ان کے آگے ریاست کی اعلیٰ ترین عدلیہ بھی بے بس تھی۔ پھر بھی کئی سر پھرے آواز اٹھاتے ہیں تو ان کو غدار قرار دے کر قید خانوں میں ڈال دیا جاتا تھا، تختہ دار نصیب ہوتا تھا، بھرے مجمع میں یا پہاڑوں میں موت یا پھر جلاوطنی ان کامقدر ٹھہرتی۔ لیکن اس ادارے کی کسی سے بھی نفرت و محبت عارضی ہوتی ہے تاوقتیکہ وہ انکے اشاروں پر ناچنا بند کر دے۔ یہ ”بھائی لوگ“ غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر ناچتے اور وقتی فائدے کے لیے ریاستی مفاد بھی بیچ دیتے تھے جبکہ بھگتنا عوام اور ریاست کو پڑتا تھا۔ یہ ملکی قانون سے بالا تر اور ریاست کے اندر ایک اور ریاست تھے جہاں ان کے اپنے قوانین لاگو ہوتے تھے اور ان کے سامنے انصاف دینے والا قاضی القضاۃ بھی بے بس ہوتا تھا جس کی ایک وجہ ان کی کچھ کمزوریاں اور اس ادارہ کی بے پناہ طاقت تھی۔ اس ریاست کے ہر کل پرزے سے ان کے نام سے بالکل مختلف کام کر رہے ہوتے تھے جیسے اطلاعات کے محکمہ کا کام اپنے مخالفین اور مملکت بارے سچ چھپا کر جھوٹ پھیلانا ہوتا ہے۔ محکمہ انصاف کا کام ناانصافی کو ہوا دینا، داخلہ کا کام ریاست میں انتشار قائم کرنا اور اس طرح صحت، خارجہ، خزانہ و دیگر محکموں کا کام رعایا و ریاست کی بہتری کے بجائے اذیت پہنچانا ہوتا تھا۔
اس ریاست میں ”بھائی لوگوں“ کے کارندے ہر طرف جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے لیس مخالفین اور اشرافیہ کی نجی زندگی کی خفیہ ویڈیو آڈیو ریکارڈ کرتے رہتے تھے اور وقت آنے پر انہیں بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے کارندے ریاست میں اپنی سوچ کے مطابق ذہن سازی کا کام بھی کرتے ہیں اور اس میں نام نہاد دانشوروں، مذہبی رہنماؤں، ابلاغ سے متعلق لوگ، اساتذہ، اشرافیہ اور ریاست کے دیگر ادارے ان کے اس مقصد کے حصول کے لیے پیش پیش ہوتے تھے۔ مزاحمت کرنے والوں کو موت بڑی مشکل سے نصیب ہوتی وہ بھی بے گورو کفن۔ آسان لفظوں میں یہ ایک ایسی ریاست کی تخلیق چاہتے تھے جہاں ان کے ایجنڈے کے خلاف سوچ بھی جرم ٹھہرتی تھی۔ گو کہ ریاستی قانون کے مطابق یہ مجلس شوریٰ اور حکومت وقت کو جوابدہ تھے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ یہاں پر مختلف سوچ رکھنے والوں کو نہ صرف منظر سے غائب کر دیا جاتا ہے بلکہ سرکاری ریکارڈ میں کسی ایسے شخص کی موجودگی کے شواہد کو بھی مٹا دیا جاتا ہے اور لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اس نام کا کوئی شخص اس ریاست میں کوئی وجود ہی نہیں رکھتا۔ ان کے عقوبت خانوں میں ریاستی ایجنڈے سے مخالفت رکھنے والے فرد کے لیے بدترین تشدد، موت یا غائب کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ یہاں پر لوگوں کے ذہنوں، ان کے کردار اور شعار پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور بد ترین تشدد سے ان کی برین واشنگ کر دی جاتی تھی۔ ریاستی ایجنڈے سے اختلاف کرنے والوں کا انجام بدترین موت تھا۔ ریاست میں بنیادی انسانی حقوق کی دستیابی تو ایک طرف بنیادی انسانی جبلتوں پر بھی پابندی ہوتی تھی۔
دشمن ملک کو ہوا دکھا کر جنگی جنون ملی نغموں کی گونج، قیدیوں کو ننگا کر کے تشدد کرنا مستقل نگرانی اور برین واشنگ کے ذریعے ایک ایسی کھیپ تیار کرنا تھا جو ان کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ لیکن کہتے ہیں نا سوچ پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اس لیے کہیں کہیں اور کبھی کبھی سچ اور مزاحمت کی چنگاری ابھرتی رہتی ہے۔
اس ملک میں سیاسی و ریاستی وفاداریاں اسی محکمے کے اشارے پر وقت کے ساتھ بدلتی رہتی تھی جس میں ریاستی اور اس مخصوص ادارے کے مفادات کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ ریاستی مشینری مخصوص جھوٹ پھیلانے، نفرت، مذہبی تعصب اور معاشرے میں تقسیم کو ہوا دینے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ قیدیوں پر طرح طرح کے مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اس سے اس کے ان گناہوں کا اقرار کرایا جاتا ہے جو اس نے کبھی نہیں کیے ہوتے ان پر ریاست سے غداری کا الزام لگایا جاتا تھا، خرد برد اور رشوت کا الزام لگایا جاتا ہے جسے بطور طاقت تسلیم کرایا جاتا، اِس کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا تھا۔
اس سارے تشدد کا مقصد آزاد اور مختلف سوچ رکھنے والے کے ذہن کو تبدیل کرنا ہوتا تھا۔ گو تشدد کے ساتھ دلیل کو شکست نہیں دی جا سکتی لیکن انسان جسم گوشت پوست کا لوتھڑا ہے پتھر تو نہیں نتیجتاً تشدد وقتی طور پر حق پر غالب آ جاتا تھا۔ ان سے یہ اقرار کرایا جاتا ہے کہ دو اور دو چار نہیں پانچ ہوتے ہیں اور یہ لازم نہیں کہ ہر بار دو اور دو پانچ ہی ہوں یہ ریاست کی مرضی و منشا ہے کہ وہ دو اور دو کو تین، پانچ یا چھ کہہ دے۔ ان کا مقصد عوام کا واحد کام ریاست کی ہاں میں ہاں ملانا رہ گیا تھا۔ قید خانوں میں اکثر قیدیوں سے ان کی آزادانہ سوچ چھین لی جاتی تھی۔ ان کی نئے سرے سے ذہن سازی کی جاتی ہے وہ قید خانے سے نکلنے پر وہ آزاد سوچ سے آزادی حاصل کر چکے ہوتے اور پہلے سے بالکل مختلف انسان ہوتے تھے۔ ظلم کی انتہا کے باوجود کچھ سر پھرے ”بھائی لوگوں“ اور ان کے کارندوں کی حاکمیت کو قبول نہیں کرتے تھے اور مزاحمت جاری رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ یہ نہیں مانتے تھے کہ ان کے مقدر میں یہ لکھ دیا کہ وہ دلیل کے بجائے طاقت کی پوجا کریں اپنی روح کو فروخت کرتے رہیں اور غلامی کو آزادی سمجھیں۔ ملامت اور مزاحمت میں جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں یہی لوگ ہماری آخری امید ہیں، اللہ ان کی حفاظت کرے۔ آمین
قارئین کالم بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔