احتجاج میں احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے

احتجاج میں احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے بعض شہروں میں احتجاج کے نام پر جو کچھ ہوا اِس کی کسی طور تائید نہیں کی جا سکتی۔ سرکاری املاک، ملٹری املاک اور تنصیبات پر حملوں سے متعلق منظر عام پر آنے والی آڈیوز کے بعد پی ٹی آئی کی سنجیدہ لیڈرشپ کو غور کرنا چاہئے کہ ایسے توڑ پھوڑ پر مبنی مظاہروں، جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد کارروائیوں کی اجازت کس نے دی؟
قومی سلامتی کے ذمے دار اداروں پر حملے ملک دشمنی اور فاشزم ہے۔ شرپسند عناصر کی جانب سے ریڈ لائن کراس کی گئی ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کے افسوسناک واقعات ریاست دشمنی کے مترادف ہیں۔یہ سیاست نہیں بلکہ کھلی دہشت گردی ہے لہٰذا سخت ترین احتساب ہو ناچاہیے۔قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔
پنجاب میں نگران حکومت کی طرف سے صوبہ بھر میں امن عامہ کی فضا قائم رکھنے کیلئے موثر اقدامات کئے گئے تاکہ عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ احتجاج کی آڑ میں عوام کے روزمرہ معمولات زندگی میں کسی کو بھی خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پر امن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن سٹرکوں کو بند کرنا اور املاک پر حملے کسی بھی صورت برداشت نہیں۔ امن عامہ کی فضا برقرار رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے جسے احسن انداز سے نبھایا جائے کیونکہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ایسے عناصر کی آہنی ہاتھوں سے سرکوبی ضروری ہے۔ پولیس کو عوام کے جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہو گا۔املاک کو نقصان پہنچانا اور توڑ پھوڑکرنا کسی بھی صورت جائز نہیں،یہ فساد فی الارض ہے۔ ایسے لوگوں کیخلاف قانو ن کو حرکت میں آنا چاہئے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ فساد پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹے اور جن لوگوں کی املاک کا نقصان ہوا ہے انہیں پورا کرے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی حفاظت کرے۔ان کی جان ومال عزت وآبرو کی ذمہ دار حکومت وقت ہے اس کے ساتھ ساتھ احتجاج اور مظاہروں کی آڑ میں اگر عوام کی املاک یا جان کا نقصان ہوتا ہے تو ریاست یا تو وہ نقصان خود پورا کرے یا پھر ان لوگوں سے پورا کرائے جنہوں نے املاک کو نشانہ بنایا۔
اصل میں اسلام میں ہر چیز کا اصول بتادیاگیا ہے۔قانون کے دائرے میں ہی سب حقوق حاصل کئے جاسکتے ہیں۔اسلام امن کا داعی ہے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس دین میں جنگ کے بھی آداب سکھائے گئے ہوں،اس میں اپنی بات کہنے کا طریقہ نہ بتایا گیا ہو۔ہمارے ہاں احتجاج کی آڑ میں غریبوں کا نقصان کیاجاتا ہے جو شرعی اور قانونی ہر لحاظ سے ناجائز ہے۔
سیاسی رہنماؤں کو احتجاج اوراپنے مطالبات منوانے کے حوالے سے لوگوں کی تربیت کرنی چاہئے۔ املاک کا نقصان قطعی جائز نہیں ہوسکتا۔کوئی سی بھی دلیل لے آئیں۔یہ تشدد ہے اورجو چند لوگ ایسا کرتے ہیں وہ در حقیقت جنونیت اور دہشت ہے۔ احتجاج سب کا حق ہے مگر مدلل اور غیرمتشدد طریقے سے۔تشددکی صورت میں وہ احتجاج نہیں رہتا بلکہ جرم بن جاتا ہے جو کسی شہری کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے نہ تومسئلے کا حل نکلتا ہے اورنہ ہی صلح ہوسکتی ہے۔مسائل کے حل یا اختلاف رائے کو ظاہر کرنے کیلئے تشدد ایک منفی رویہ ہے۔اگر بات صحیح ہے تو اسے صحیح انداز اور حکمت کیساتھ بیان کیا جاسکتا ہے جس میں ایک طریقہ پلے کارڈز کے ساتھ پرامن مظاہرہ ہوتا ہے۔دوسرا طریقہ بااثر افراد کی رائے کا پرچار کرنا اور متعلقہ افراد کے ساتھ لابنگ کرنا اور ایجوکیٹ کرنا ہوتا ہے۔یہ طریقہ ترقی یافتہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشرے میں کم خواندگی کی وجہ سے سادہ لوگوں کو اکساکر غیرمہذب حرکتیں کرائی جاتی ہیں جن کا مقصد مطالبے سے کہیں زیادہ اپنی طاقت کا اظہار ہوتا ہے اورپاکستان میں یہ طریقہ خوب اچھی طرح سے اختیار کیاجاتا ہے چونکہ یہاں پر ایسے تمام عوامل موجود ہیں اس کی وجہ سے ایسے تمام طاقت کے مظاہرے آسان طریقے سے کئے جاتے ہیں۔
یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور ملک کی حفاظت کے ضامن ادارے کے خلاف وہ کچھ کیا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان واقعات سے سیاسی جماعت نے اپنے خلاف یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ وہ ملک اور اس کے اداروں کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ ایسے حالات پیدا کر کے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی واقعی ایک سیاسی جماعت کے طور پر اپنا تشخص برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے شر پسند عناصر سے جان چھڑا کر خود کو ملک دوست ثابت کرنا ہوگا بصورت دیگر عدالتوں سے ریلیف ملنے کے باوجود ادارے اور عوام اس جماعت کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔