تبدیلی کا یوٹرن

تبدیلی کا یوٹرن

ایک وکیل صاحب کے پاس ایک موکل آیا (مؤکل نہیں، جو جادو ٹونے سے حاضر ہوتے ہیں) ملزم، جس پر الزام تھا کہ اس نے اینٹ مار کر ایک بندے کو قتل کر دیا ہے۔ ملزم کا ماضی بھی کچھ فاتر العقل سا تھا اور حلیہ بھی اس کا ساتھ دیتا تھا۔ وکیل صاحب نے اس کو پاگل اور الفاظ کی ادائیگی بھی درست نہ کر سکنے کی اداکاری سکھائی۔ ڈاکٹروں سے بھی رابطہ ہو گیا۔ انہوں نے بھی اس کو سنگل ٹریک شخص قرار دیا۔ جیسا کہا گیا ویسا کہہ دیا گیا۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ وکیل صاحب نے ہوورل ہورل کے ساتھ اس کو سکھا دیا کہ ہر بات کے جواب میں کہا ’’میرا ویاہ ہووے گا‘‘، میرا بیاہ ہو گا، میرا بیاہ ہو گا، ہوورل اور ساتھ ہاتھ کے اشاروں میں نازیبا حرکات بھی سکھا دیں۔ جج صاحب کے ہر سوال کا جواب اس نے اسی طرح دیا، بیہودگی اور نہ سمجھ آنے والی زبان میں، وکیل استغاثہ بھی عاجز آ گیا۔ حتیٰ کہ مدعی مقدمہ بھی یقین کرنے لگ گئے کہ شائد یہی حقیقت ہے۔ مختصراً یہ کہ وہ مقدمہ سے بری کر دیا گیا۔ باہر آ کر وکیل صاحب نے بقایا حتمی فیس کا مطالبہ کیا تو اس نے وکیل صاحب کو بھی وہی جواب دیا، ہوورل ہوورل میرا بیاہ ہو گا، انہی حرکات اشاروں کے ساتھ، وکیل صاحب حیران رہ گئے۔ جوتا اتار کر سر پر مارا اور ساتھ چند گالیاں دیں کہ یہ زبان، انداز، اداکاری عدالت میں مقدمہ کے لیے تھے، میرے لیے نہیں تھے۔ یہ اپنے اندر جن حاضر میری فیس کی ادائیگی کے بعد کرنا۔
جو زبان 2014 کے بعد سے آج کے حکمران طبقے نے مخالفین کے لیے اختیار کر رکھی ہے جب یہی زبان اپنا مقدمہ پیش کرنے والوں کے ساتھ استعمال کی تو انہوں نے فوراً سمجھایا کہ یہ انداز، یہ زبان، یہ گفتار، یہ اداکاری اپوزیشن اور اتحادیوں کے لیے ہے، ہمارے لیے نہیں۔ ڈاکٹر، وکیل، محسن، وفادار ملازم اور جو بھروسہ کرے اس کے ساتھ اس کی توقع کے خلاف سلوک اور رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
سیاق و سباق سے ہٹ کر کوئی تجزیہ ہو سکتا ہے نہ ہی کوئی کردار، یہ پاکستان ہے کوئی امریکہ انگلینڈ، کینیڈا، سعودیہ نہیں اور حقیقی کردار کو بھی فلم کے کردار کی طرح نہیں لیتے۔ اداکاری سے کوئی رہبر نہیں بن سکتا۔ رہبری افکار، کردار، احساس اور مشقت کے ساتھ قربانی مانگتی ہے۔
میں نے سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے تجزیہ کاروں کو نوازشریف کے لائحہ عمل، طریقہ کار کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تو مجھے دکھ ہوا کہ اب جو موقف اختیار کیا گیا ہے۔ یہ موقف جسے بیانیہ کا نام دیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو ایک سال سے جب سے پی ڈی ایم بنا اور ٹوٹا ہے، سب کو اس پر قائل کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ شہدائے اے پی ایس کے معاملہ میں سیاست دانوں میں صرف بلاول بھٹو نے دکھی والدین کی نمائندگی کی اور اصولی موقف اپنایا۔ حالانکہ ان کے خاندان نے گڑھی خدابخش آباد کر دیا۔ اگر گڑھی خدا بخش اس طریقہ سے آباد نہ ہوتا تو نظام یوں برباد نہ ہوتا۔ چلتے لمحے میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ میاں نوازشریف مقبول ترین رہنما ہیں جبکہ حکومتی اتحاد غیر مقبول ترین مقام حاصل کر چکا ہے۔
اللہ تعالیٰ دنوں کو انسانوں میں پھیرتا رہتا ہے (مفہوم)۔ ایک وقت تھا
’’جب سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا‘‘
پھر دھرنے بھی ہوئے، اشتہاری ہونے کے باوجود سپریم کورٹ سے منتخب وزیراعظم کو نااہل بھی کرایا۔ کسی کی پگڑی، عزت محفوظ تھی نہ جان محفوظ۔ کیوں کہ سیاں جی کوتوال تھے۔ جب کوتوال سیاں نہ رہے یعنی وہ دن گئے جب سیاں جی کوتوال تھے تو پھر اچانک سپریم کورٹ میں بھی طلبی ہو گئی۔ قومی اسمبلی میں شکست بھی دیکھی اور صدر کے بجائے سپیکر کے ذریعے پارلیمنٹ اجلاس بلایا مگر اس لیے ملتوی کر دیا کہ سارا کھیل تہہ و بالا نہ ہو جائے کیونکہ حکومتی چھتریوں کے پرندے بدلتے موسم کے پیش نظر دوسری چھتریوں پر جا بیٹھے ہیں جہاں اب اقتدار کا دانہ ملنے کو ہے۔ ان کا مزاج بھی ان پنچھیوں اور پردیسیوں کی طرح ہوتا ہے جو کبھی کسی سے دلی وابستگی اور پیار نہیں رکھتے ان کا مفاد ان کا پیار اور نظریہ ہوا کرتا ہے۔ یہ پہلے کبھی پی ٹی آئی یا عمران خان کے ساتھ دیکھے نہ آنے والے دنوں میں نظر آئیں گے۔ نقارہ بج چکا، چڑیاں کھیت چگ گئیں۔ اب یہ جتنی دیر باقی رہیں گے موجودہ حکومت کی میٹنگز، منٹس آف میٹنگز اور ایک ایک رپورٹ اپوزیشن اور حکومت مخالف اکابرین تک پہنچائیں گے۔ وہ بیان دلوائیں گے، ایسی حرکات کرائیں گے جو انجام کو قریب تر کر دے۔ اب یہ مخالفین سے زیادہ مخالف ثابت ہوں گے۔ یہی روایت اور یہی تاریخ ہے یہی مستقبل اور یہی حقیقت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر نئے دن کے ساتھ حکومت نے اپنے انجام کو قریب تر لانے میں بڑی مشقت اور جانفشانی سے کام کیا۔ ہر وہ کام جو حکومت کے کرنے کا تھا وہ لانے والوں کے سپرد کر دیا اور بگاڑ کی ذمہ داری حکومت نے سنبھال لی۔ پارلیمانی نظام میں اپوزیشن سے بھارت سے زیادہ دشمنی رکھنا بلکہ ذاتی اور جانی دشمنی پر اتر آنا اور اب جب سمجھ آئی کہ نہیں ہم تو کسی کے مسلز پر طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اصل طاقت تو کارکردگی اور آئین ہے، نظام ہے جس کے تحت یہ سارا پروٹوکول چل رہا ہے۔ تو پھر سپیکر کو ٹاسک دیا گیا کہ اپوزیشن سے ہاتھ ملائے اور جو چپڑاسی ہونے کے لائق نہ تھے جو پنجاب کے ڈاکو تھے، جو نازیوں سے بد تر (ایم کیو ایم) جو ٹی وی سکرین پر ٹیریان کی ولدیت کے سوال کرتے تھے (بابر اعوان)، وہ حکومت کی طاقت ٹھہرے۔ پارلیمانی نظام میں اپوزیشن کا کردار یقینی ہے۔ اپوزیشن کو ڈکٹیٹر بھی مشکل وقت کے لیے اتنی گنجائش کے ساتھ رکھتے تھے کہ ذاتی دشمنی کا تاثر نہ ابھرے۔ نہ جانے اس حکومت کے معیار کیا تھے کہ بدزبانی، الزام تراشی، ڈھٹائی، جھوٹ، کرپشن اور اس پر ڈھٹائی یہ کہ کارکردگی صفر بلکہ منفی ایسی منفی کہ بدتری کے حوالے سے پچھلے 75 سال میں عوام پر اتنے بھاری، مشکل، بوجھل اور ناقابل برداشت تین سال نہیں گزرے جن میں اس حکومت نے مبتلا کر دیا۔ اور پھر ہر روز نئے نئے لطیفے اور بیانیے متعارف کرانا بھی اس حکومت کا خاصا رہا ہے۔ شوکت ترین جو بغیر کسی عہدے اور حیثیت کے مالیاتی امور کے انچارج ہیں، فرماتے ہیں کہ ووٹ کا حق نہیں اگر ٹیکس نہیں دیتے۔ اللہ کے بندے پہلے لوگوں کے لیے روزگار اور کاروبار کا بندوبست تو کرو اور سب سے زیادہ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ بزدار حضرت ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے فلسفہ پر تبصرہ زنی فرماتے پائے گئے۔
دوسری جانب بلاول بھٹو اور شہبازشریف کی 5 سے زیادہ ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ حکومتی کشتی کے سوار اپنا سامان اتار رہے ہیں اور نئے مسافر تیاری پکڑ رہے ہیں۔ افسوس کہ کچھ کر کے کسی انجام سے دوچار ہونا الگ بات تھی، موجودہ حکمران تو محض رنگ بازی، شعبدہ بازی، جھوٹ، منافقت، بدعنوانی، ہوس اقتدار اور محسن کشی کی دلدل میں ایسے اترے کہ عبرت بن گئے۔
اب حقیقت یہی ہے کہ حکمرانوں ہی نہیں ان کے نظریۂ تبدیلی کا بھی یوٹرن ہے جسے کوئی روک نہیں پائے گا۔
پھس گئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا
روہ نوں کہو ہن رہوے محمد، جے رہوے تے مناں