سرخیاں ان کی……؟

سرخیاں ان کی……؟

٭…… کسی کو عدم استحکام پیدا نہیں کرنے دیں گے، جنرل باجوہ
٭…… گزشتہ ہفتہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں کیڈٹس کی پروقار پاسنگ آؤٹ تقریب سے بطور مہمان خصوصی تاریخی خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے عظیم سپہ سالار قمر جاوید باجوہ نے خاص طور پر کہا کہ وہ کسی ملک، فرد یا گروہ کی پاکستان کو سیاسی و معاشی طور پر غیرمستحکم کرنے کی کوشش عوامی حمایت سے ناکام بنا دیں گے۔ بلاشبہ پاکستان کا قیام ایک نظریہ اور ایک منزل تھی۔ بلکہ لکھتے لکھتے تاریخ پاکستان کی یاد آ گئی کہ جب آل انڈیا مسلم لیگ، نیشنل کانگریس اور حکومت برطانیہ کے درمیان تقسیم ہند کا مشکل ترین معاملہ طے پا گیا اور دو الگ الگ ریاستیں وجود میں آ گئیں تو برطانوی وائسرائے لارڈماؤنٹ بیٹن آزاد ریاست پاکستان تشریف لائے تھے غالباً قائداعظم محمد علی جناحؒ بانی پاکستان نے انہیں الوداعی عشائیہ دیا تھا تو ہندوستان کے آخری انگریز وائسرائے نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے دوران خطاب یہ بھی فرمایا تھا کہ پاکستان کا قیام تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے…… پھر قائداعظم ؒ کی رحلت کے بعد سے تادم تحریر کیسی کیسی سرطانی بیماریوں اور محلاتی سازشوں نے عدم استحکام پیدا کئے رکھا۔ وہ کس طرح لکھوں اور کیا کیا لکھوں۔ سوائے اس کے کسی نے کہا تھا:
کہ بے زبانی زباں نہ ہو جائے
رازِ اُلفت عیاں نہ ہو جائے
لہٰذا میری خواہش ہے کہ آج جبکہ ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں ایسی ایسی مہلک معاشرتی خرابیوں میں گرفتار ہو چکے ہیں بلکہ تمام تر اخلاقیات کو بھی دفن کر چکے ہیں۔ رہی سہی کسر ”آڈیولیکس“ نے اٹھا رکھی ہے۔ حالانکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے مطابق یہ ایک ”Unpardonable crime“ ہے۔ مگر افسوس صد افسوس  کہ گھنٹوں کے حساب سے نشر ہونے والی ان ”لیکس“ پے بھی نہ صرف ادارے بلکہ سپریم کورٹ بھی خاموش ہے۔ یہی نہیں اس سے بھی خطرناک بات حکومتی اور اپوزیشن کی ”Dirty political tussle“اور 
فوج کو متنازع بنانے کی کوشش کے سامنے عدم استحکام تو چھوٹا لفظ دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہم ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ پے پہنچ چکے ہیں۔ کیونکہ اجتماعی قیادت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے لہٰذا میری اپیل ہے کہ جس طرح جنرل باجوہ کی قیادت میں ہماری فوج نے نہ صرف نائن الیون کے بعد سے بلکہ پچھلے چند سال میں ہر طرح کی قربانیاں بالخصوص ملک کے طول و عرض میں پھیلی دہشت گردی اور بم دھماکوں کے خلاف جنگ جیتی ہے اور ایسے ایسے فساد کا خاتمہ کیا ہے۔ اب وقت ہے کہ ملک میں جاری سیاسی فساد اور نفرتوں کی آگ کو پھیلنے سے بھی روکا جائے اور جلد سے جلد انتخابات کے لئے نہ صرف ”Level playing field“ دی جائے بلکہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے لئے بھی مثالی ماحول سازگار بنایا جائے اور ایسا طریقہ دریافت کرایا جائے کہ بعداز انتخابات خواہ کسی بھی لیڈر کو ہی قوم کیوں نہ منتخب کر لے کوئی سیاسی Heat یا Hate ملک میں سیاسی انتشار پیدا نہ کر سکے نہ پارلیمان کو عضو معطل بنایا جا سکے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یقین جانئے بھوک بیماری اور جہالت کی ماری قوم ہی نہیں تاریخ بھی آپ کو ہمیشہ سنہری حروف سے یاد رکھے گی۔ ویسے بھی آج نہیں تو کل صرف ہمارا ہے۔ کیونکہ پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے اور یہی خوبصورتی دنیا پے حکمرانی کرے گی۔ ان شاء اللہ۔ میرے دوست محترم انور شعور نے کہا تھا:
پچھہتر سال کی مدت ہی کیا ہے
ابھی تو ایک مستقبل پڑا ہے
……………………………………
٭…… عمران خان کا فائنل میچ……؟
٭…… اگرچہ ہماری انوکھی سیاست کے کئی انوکھے اور پراسرار رموز ہیں۔ ہمارے معزز سیاستدان عوام سے ووٹ لینے اور ان پر حکومت کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ بہرحال، پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم جناب عمران خان فوری الیکشن کا مطالبہ منوانے کے لئے پچاس سے زائد بڑے بڑے عوامی انقلابی جلسے کر چکے ہیں۔ بلکہ آپ کو یاد ہو گا کہ جونہی عدم اعتماد کے نتیجے میں جناب شہباز شریف نئے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے جناب عمران خان نے اسی دن نہ کہ قومی اسمبلی سے استعفے دیئے بلکہ فوری الیکشن کا مطالبہ بھی کر دیا۔ میری رائے میں کاش اتحادی سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کے لئے اس قدر جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرتیں۔ صبروتحمل سے کام لیتیں تو نہ آج اس قدر غیرمقبول ہوتیں نہ ہی اس قدر سیاسی محاذ آرائی اور افراتفری ہوتی۔ اب جبکہ جناب مفتاح اسماعیل کے ہاتھوں معاشی تباہ کاری کے بعد ماضی کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار معاشی میدان میں اترے ہیں ان کی آمد نے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف بھی فراہم کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ کامیاب ہوں مگر موڈیز کے انکشافات نے بیچ چوراہے میں ان کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے جبکہ عمران خان ہائی ہوپس اور انرجی کے ساتھ ساتھ ہائی مورل گراؤنڈ پے تنہا کھڑا حکومت وقت کو للکار رہا ہے۔ اس حکومت کو جس کے تمام تر اعلیٰ دماغ اور حصے داران گزشتہ تین برس سے الیکشن الیکشن کا ڈھول پیٹ رہے تھے۔ اب اس کوشش میں ہیں کہ اقتدار کو طول دیا جائے اور حکومتی مزہ لیا جائے یا کم از کم آئندہ بجٹ تک اتنی مہلت مل جائے کہ کوئی معاشی دھماکہ کر سکیں اور عوام کو مائل کر سکیں۔ فی الحال زمینی حقائق ایک طرف چودہ جماعتیں اور اکیلی جماعت ایک دوسرے کے مقابل ہیں اس مقابلہ سازی میں ایف آئی آر پے ایف آئی آر درج کرا رہے ہیں۔ جبکہ جناب عمران خان آخری کال کے لئے غالباً سپیشل کال کے منتظر بھی ہیں۔ نہ جانے کیوں مجھے بھی یقین ہے کہ پاکستان میں جس طرح عام ڈنر ہوتے ہیں ایسے ہی خفیہ ڈنر بھی جاری رہتے ہیں۔ لہٰذا کسی نہ کسی مثبت پیش رفت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ میری بھی اپیل ہے کہ دونوں ٹیموں کو باہمی معرکے سے بچایا جائے۔جبکہ دونوں ٹیموں کا بھی فرض ہے کہ وہ نہ صرف خفیہ خطرے کو محسوس کریں بلکہ حکومت وقت کی یہ زیادہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اس حقیقت کوبھی محسوس کرے کہ ان کی سیاسی غلطیوں کی بدولت آج جناب عمران خان جس اوج فلک پے کھڑا ہے وہاں جنوری 2022 میں تنہا محترمہ مریم نواز کھڑی حکومت کو للکار رہی تھیں جبکہ آج حالات یکسر مختلف ہیں۔ لہٰذا بے حد ضروری ہے کہ آج کے حریف اور حلیف سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں اور اپنی کمال سیاست سے ایک دوسرے کو زیر کریں۔ نہ کہ……؟ آپ کے قیمتی واٹس ایپ میسیج کے لئے۔

مصنف کے بارے میں