گمشدہ اورمغوی بچوں کی عدم بازیابی، عدالت برہم، آئی جی سندھ طلب

گمشدہ اورمغوی بچوں کی عدم بازیابی، عدالت برہم، آئی جی سندھ طلب
کیپشن: image by facebook

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی کے حوالے سے پیش کی جانے والی پولیس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور نئی ٹیم تشکیل دینے کے احکامات جاری کردیے۔

تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران فوکل پرسن ڈی آئی جی کرائم برانچ غلام سرور جمالی نے عدالت میں پولیس کی کارکردگی رپورٹ پیش کی۔

پولیس کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 23 گمشدہ اور اغوا کیے جانے والے بچوں میں سے ایک بچی واپس گھر پہنچ گئی , رپورٹ پر عدالت نے پولیس افسر سے استفسار کیا کہ بچوں کی بازیابی کے لیے کیا پیشرفت ہوئی؟، باقی 22 بچوں کا کیا ہوا؟ پولیس نے اس ضمن میں کیا اقدامات کیے؟

اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہا کہ عدالتی آرڈر کی کاپی آئی جی سندھ کو بھی ارسال کر دی تھی، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمیٹی کی کارکردگی ہے یا محض کاغذ کا ٹکڑا؟ غلام سرور جمالی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میں فوکل پرسن ہوں، کمیٹی میں تفتیشی افسران ودیگر لوگ بھی شامل ہیں۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آئی جی سندھ کو حکم دیا تھا کہ کسی فعال ڈی آئی جی کو کمیٹی کی سربراہی دیں۔ جج کا کہنا تھا کہ عدالت بچوں کی بازیابی کے لیے ایک ٹیم تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی مگر آپ نے گزشتہ روز اجلاس کرکے رسمی کارروائی پوری کی، ٹیم کی کارکردگی غیر اطمینان بخش اور سست ہے۔

عدالت نے آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ بچوں کی بازیابی کے لیے ٹیم بھی تشکیل دیں اور اس کی سربراہی کسی متحرک ڈی آئی جی کے سپرد کریں , سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر آئی جی سندھ کو خود پیش ہوکر اور کارکردگی سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے محکمہ پولیس کو ہدایت کی کہ بچوں کی بازیابی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔

درخواست گزار روشنی ہیلپ لائن کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پولیس متعدد گمشدہ بچوں کی ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کا لاپتہ ہونا پاکستان کا سنگین معاملہ ہے مگر پولیس کی جانب سے ہر بار ایک ہی روپورٹ پیش کی جاتی ہے۔

وکیل روشنی ہیلپ لائن نے کہا کہ لواحقین کے ساتھ پولیس اسٹیشنز میں بدسلوکی کی جاتی ہے، ابھی تک 10 بچے بازیاب ہوئے جبکہ 12 تاحال لاپتہ ہیں۔

لاپتہ بچی کی والدہ نے عدالت کو بتایا کہ کہ میری بچی بنگلے میں ہے نہ بنگلے والے کا نام ایف آئی آر میں آتا ہے اور نہ ہی وہ خود عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔

ایک اور لاپتہ بچی بسما کے بھائی نے معزز جج کو بتایا کہ میری چار سالہ بہن 16 جون کو کورنگی نمبر 5 سے لاپتہ ہوئی جس کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا، 12 سالہ منیزہ کے والد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ میری بیٹی 3 سال سے لاپتہ ہے , عدالت نے سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو نئی کمیٹی بنانے اور آئندہ سماعت پر خود رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔