اسلام آباد : چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ صحافی ایک کالے قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ صحافیوں نے پہلے بھی اسی قسم کے کالے قانون کے خلاف ڈکٹیٹر ایوب خان، ڈکٹیٹر ضیاءاور ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں بھی جدوجہد کی۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ضیاءمارشل لاءکے بعد وزیراعظم کی حیثیت سے صحافیوں کے خلاف عائد کی جانے والی تمام پابندیاں ختم کر دی تھیں۔
بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ کے ہاوس سامنے صحافیوں کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے صدر زرداری کے دور میں کالے قوانین ختم کرنے اور پابندیوں ختم کرنے کے لئے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی تھی اور آئین میں بگاڑ کو درست کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پیکا اور پی ایم ڈی اے جیسے قوانین کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی اے نہ صرف یہ کہ صحافیوں پر حملہ ہے بلکہ جمہوریت، عدلیہ اور صحافیوں کے حق روزگار پر بھی حملہ ہے۔ ہم اس کالے قانون کو پارلیمنٹ اور تمام فورموں پر اس کی مخالفت کریں گے۔ آپ جہاں بھی احتجاج کی کال دیں گے وہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے جیالے آپ کے ساتھ ہوں گے۔
سینئر صحافیوں، حامد میر، عاصمہ شیرازی اور دیگر کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پی ایم ڈی اے کا مسودہ وہی جسے حکومت رات کے اندھیرے مین آرڈیننس کے ذریعے لانا چاہتی تھی۔ ہمیں شک ہے کہ حکومت سے پارلیمان کے جوائنٹ سیشن میں منظور کرانا چاہے گی اور اگر اس نے پارلیمان سے یہ کالا قانون بلڈوز کیا تو پھر ہم اس کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ آج کے مشترکہ اجلاس میں پی پی پی دو نکتے اٹھائے گی ایک تو پی ایم ڈی اے کا کالا قانون ہے اور دوسرا نکتہ 20ہزارملازمین کو ناجائز طور پر ملازمتوں سے برطرف کرنا ہے۔ اگر پارلیمنٹ سپریم کے چیف جسٹس کو بحال کر سکتی ہے تو ان ملازمین کو بحال کیوں نہیں کر سکتی۔ ان ملازمین کو جنہیں شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے نوکریاں دیں تھیں 1997ءمیں بھی انہیں برطرف کر دیا گیا جب ان کی عمریں تقریباً 30سال کی تھی اب ان ملازمین کی عمریں 50سال سے زیادہ ہوگئی ہیں تو عدالت نے انہیں برطرف کردیا گیا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں پولیس اور دیگر حکام سے صحافیوں پر حملے کے متعلق جو جوابات دئیے گئے ہیں وہ غیراطمینان بخش ہیں۔ جو صحافی حملوں کا شکار ہوئے وہ بھی غیرمطمئن ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں عدلیہ کی آزادی پر ایک ہی موقف رکھتی ہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے تمام اپوزیشن کے سیاستدانوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور مولانا فضل الرحمن نے کئی دھائیوں تک پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاست کی ہے اور وہ ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ ہمارا سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہر ڈکٹیٹر نے صحافیوں کو کمزور کرنا چاہا لیکن جنرل ضیاء جنرل مشرف کے دور میں صحافی سچ کے ساتھ کھڑے رہے۔ صحافیوں میں اتنی قابلیت اور دم خم ہے کہ وہ پی ایم ڈی اے جیسے کالے قانون کا صفایا کر سکتے ہیں۔ جہاں تک حکومت کے جائز ہونے کا سوال ہے تو تمام اپوزیشن پارٹیاں اسے ناجائز حکومت سمجھتی ہیں۔ ہم پہلے بھی چاہتے تھے اور اب بھی چاہتے ہیں کہ اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے اور یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی سے سینیٹر بنا کر ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر پاکستانی شہری کو اس کا درست مقام دیا جائے۔ جس طرح سے وزیراعظم اور اس کے وزراءایک ادارے کو سیاست میں کھینچ کر لاتے ہیں اس سے وہ ادارہ متنازعہ بن جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کے متعلق انہوں نے کہا کہ کیا یہ وزراءاور نوکر رکھے گئے سوشل میڈیا کے افراد ففتھ جنریشن وار سے پاکستان کا دفاع کر سکتے ہیں؟ اس وقت دنیا کا ہر ملک اپنے دشمن ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو ٹوئیٹر پر اپنے ہی شہریوں کے خلاف پیغامات دیتے ہیں وہ ففتھ جنریشن وار نہیں لڑ سکتے۔ یہ ففتھ جنریشن وار ایک اہل صحافی جسے ساری دنیا جانتی ہو وہ زیادہ بہتر طریقے سے لڑ سکتا ہے کیونکہ وہ پوری دن یا میں جانا پہچانا جاتا ہے اور دنیا اس کی بات تسلیم بھی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی یوم دفاع کے روز کی گئی تقریر کا اس کالے قانون پی ایم ڈی اے سے کوئی تعلق نہیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی مثبت تنقید پر یقین رکھتی ہے جنرل ضیاءکے بعد جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو آئی تھیں تو جب انہوں نے صحافیوں پر سے پابندیاں ہٹانے کا حکم دیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ صحافی تو دن رات آپ کے خلاف بات کرتے ہیں تو آپ ان پر سے پابندیوں کیوں اٹھا رہی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر وہ اپنی دل کی بھڑاس مجھ پر نکالنا چاہتے ہیں تو انہیں نکالنے دی جائے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ تاریخ کی سب سے زیادہ غیرفعال پارلیمنٹ ہے جہاں حزب اختلاف کے اراکین کو بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ پارلیمنٹ ایک ایسا پلیٹ فرام ہوتا ہے جہاں عوام کے مسائل کا حل نکالا جاتا ہے لیکن موجودہ پارلیمنٹ میں تو وزیراعظم اور وزرا صرف اپوزیشن کو گالیاں دینے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ عمران خان کو یہ نہیں معلوم کہ ہم عدالت سے لے کر سڑکوں تک صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور بہادر صحافیوں کو کوئی چپ نہیں کرا سکتا ۔