کچھ باتیں، کچھ یادیں

کچھ باتیں، کچھ یادیں

آج پورے ملک میں یومِ آزدی کی تقریبات پورے تزک واحتشام سے منائی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ یومِ آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی ہے لیکن جس پاکستان میں ہم بَس رہے ہیں وہ تو 51 سال پہلے اُس وقت معرضِ وجود میں آیا جب 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ایک ’’نیازی‘‘ نے ہماری عظمتوں کے تمغے بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سپرد کیے۔ ہم بھی جی بھر کے یومِ آزادی کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں لیکن ذہن میں اُٹھنے والے سوالوں کی خلش چین نہیں لینے دیتی۔ ہم قوم کی خوشیوں میں مخل نہیں ہونا چاہتے لیکن ہمیں یہ سوال کرنے کا حق تو دیجیے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے ہم نے لاکھوں جانوں اور سینکڑوں عصمتوں کی قربانی دی؟۔ کیا قائدؒ کے فرمان کے مطابق زمین کا یہ ٹکڑا واقعی اسلام کی تجربہ گاہ ہے؟۔ کیا ہماری پارلیمنٹ آزادوخودمختار ہے؟۔ کیا ہمارے آئینی ادارے اپنی حدودوقیود سے آشناہیں؟۔ کیا ہماری عدالتوں میں عدل وانصاف کی فراوانی ہے؟۔ کیا ہماری انتظامیہ بغیر کسی دباؤ کے اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دے رہی ہے؟۔ کیا جمہور کی اجتماعی دانش کی اونچے ایوانوں میں کوئی حیثیت ہے؟۔ کیا یہاں ووٹ کی کوئی عزت ہے؟۔ کیا یہاں گزشتہ 75 سالوں سے صرف زورآوروں ہی کی بالادستی نہیں ہے؟۔ اپنے مَن میں جھانک کر اِن 10 سوالوں کے جوابات تلاش کریں۔ اگر نتیجہ صفر آئے تو جان لیجیے کہ ہم آج بھی غلام ہیں۔ 
اب ذرا پاکستان کی 50 سالہ تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں۔ سانحۂ پاکستان پر کیا بات کریں کہ ہم تو آج تک یہ طے نہیں کر سکے کہ اِس سانحے کا ذمہ دار مسلم لیگ کے لیے گلی گلی گھوم کر سائیکل پر چندہ اکٹھا کرنے والا شیخ مجیب الرحمٰن تھا یا پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا اعلان کرکے پھانسی پر جھول جانے والاذوالفقار علی بھٹو یا پھر شراب کے ڈرم میں بیٹھ کر حکم دینے والا یحییٰ خاں؟۔ ہم نے تو سانحۂ مشرقی پاکستان کے اسباب پر قائم کی جانے والی حمودالرحمن کمیشن رپورٹ بھی 30 سالوں بعد 31 دسمبر 2000ء میں اُس وقت ادھوری شائع کی جب ایک نسل جوان ہو چکی تھی۔ نسلِ نَو کو پاکستان کی 50 سالہ تاریخ مطالعہ پاکستان کی صورت میں پڑھائی جاتی ہے لیکن وہی جو حکمرانوں کے مَن کو بھائے۔ پچھلی بیس بائیس سالہ تاریخ پرپھر بھی ابھی وقت کی دھول نہیں جمی۔ ابھی آمریت کے دامن پر وہ داغ تازہ ہیں جو جمہور کی آواز کو جلاوطنی کا دُکھ دے گئے۔ اُس شخص کا قصور صرف اتنا کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جیسے نعرے کا خالق اور داعی۔ 1999ء میں اُسے ’’مشرفی آمریت‘‘ کا سامنا کرنا پڑا اور 2017ء میں ’’عدالتی آمریت‘‘ کا۔ کیا معلوم تاریخ میں کوئی ایسا شخص بھی گزرا ہے جسے قوم نے 3 بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے سرفراز کیا ہو اور تینوں بار وہ آمریت کے لیے ناقابلِ قبول ٹھہرا ہو؟۔ پھر بھی یہ دعویٰ کہ یہاں جمہوریت پھَل پھول رہی ہے۔
تاریخ کا ایک اور ورق اُلٹتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے سینت سنبھال کر رکھے گئے ’’تحفے‘‘ پر نظر پڑتی ہے ۔ نام اُس کا عمران نیازی جس نے 1997ء میں 7 سیٹوں پر الیکشن لڑا لیکن کسی ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہ ملی۔ 2002ء کے عام انتخابات میں اُس کے حصّے میںقومی اسمبلی کی صرف اپنی سیٹ ہی آئی یا پھر خیبرپختونخوا کی ایک سیٹ اور ڈالے گئے ووٹوں کا 0.8 فیصد حصّے میں آیا۔ کپتان کی اصل رونمائی 30 اکتوبر 2011ء کو مینارِپاکستان پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ہوئی۔ اب یہ راز عیاں ہو چکا کہ مینارِ پاکستان کا عظیم اجتماع اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل احمد شجاع پاشا کی محنتوں کا ثمر تھا۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل پاشا اِس تحفے کو دوسرے آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کے سپرد کر گئے (آجکل ظہیر الاسلام تحریکِ انصاف میں پائے جاتے ہیں)۔ جب 2013ء کے عام انتخابات میں کپتان کو مطلوبہ تعداد نہ ملی تو 2014ء میں ڈی چوک اسلام آباد میں تاریخِ پاکستان کا طویل ترین دھرنا دیا گیا۔ دھرنے کی ناکامی کے بعد غالباََ یہ طے ہوا کہ ’’گلیاں ہو جان سُنجیاں وِچ مرزا یار پھرے‘‘۔ چنانچہ 2017ء میں ایک انتہائی متنازع فیصلے میں دو تہائی اکثریت کے مالک میاں نوازشریف کو تاحیات نااہل کر دیا گیا۔ اُنہیں مسلم لیگ نون کی صدارت سونپی گئی تو عدل کے اونچے ایوانوں سے حکم آیا کہ وہ صدارت کے اہل بھی نہیں۔ اب نوازلیگ کے قائد میاں نوازشریف ہیں تو انگلینڈ میںلیکن حکم اُنہی کا چلتا ہے اور ووٹ بھی اُنہی کا۔ 
2018ء کے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے تحریکِ انصاف کو جتوانے کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن گوہرِ مقصود کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر رات ساڑھے آٹھ بجے آر ٹی ایس سسٹم کی خرابی کا بہانہ بنا کر نتائج روک دیئے گئے۔ اگلے دن تحریکِ انصاف کے حصّے میں 115 نشستیں، نوازلیگ کی 64 اور پیپلزپارٹی کی 43 نشستوں پر کامیابی کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ پاکستان کے متنازع ترین انتخابات تھے، ہیں اورہمیشہ رہیں گے۔ جب تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود بھی عمران 
خاں وزارتِ عظمیٰ کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل نہ کر سکے تو چھوٹی سیاسی جماعتوں کو عمران خاں کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا اور یوں اسٹیبلشمنٹ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی۔ ہوا مگر یہ کہ ’’جن پہ تکیہ تھا، وہی پتّے ہوا دینے لگے‘‘۔ یاد آیا کہ ایک بچھو پانی میں ڈوب رہا تھا۔ ایک کچھوے نے ترس کھا کر اُسے اپنی پُشت پر بٹھا لیا۔ تھوڑی دیر بعد کچھوے کو اپنی پُشت پر ٹھک ٹھک کی آواز سنائی دی۔ اُس نے بچھو سے پوچھا کہ وہ کیا کر رہا ہے تو بچھو نے جواب دیا ’’اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا ڈنک آزما رہا ہوں‘‘۔ کچھوے نے غصّے میں آکر ڈُبکی لگائی اور بچھو کے نیچے سے نکل گیا۔ ڈوبتا ہوا بچھو چلایا ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘۔ کچھوا بولا ’’اپنی عادت کے تحت ڈُبکی لگا رہا ہوں‘‘۔ کچھ ایسا ہی ہماری محبوب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوا کہ اُس کی گود کے پالے ہوئے عمران نیازی نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ پھر چاروناچار اسٹیبلشمنٹ نے بھی ’’نیوٹرل‘‘ ہونے کا اعلان کر دیا۔ تب کپتان نے کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ کپتان زورآوروں کو منانے کا ہر حربہ آزما چکاہے لیکن اُدھر سے ایک ہی جواب کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا۔ اسٹیبلشمنٹ کو اچھی طرح سے علم ہو چکا کہ اُس نے ملکی قیادت کے لیے غلط شخص کا انتخاب کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اِس انتخاب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ نے کپتان کا ماضی نہیں کھنگالا تھا؟۔ کیا اُسے یہ علم نہیں تھا کہ وہ ایسا بچھو ہے جو ڈَنگ مارنے سے باز نہیں آسکتا۔ تحریکِ انصاف کے کتنے ہی لوگ ہیں جو عمران گزیدہ ہیں۔ جو شخص جھوٹ بولتے ہوئے اپنے خاندان تک کو معاف نہیں کرتا، اُس سے بھلا خیر کی اُمید کون کر سکتا ہے۔ اُس کا تازہ ترین جھوٹ یہ کہ 1930ء کی تاریخی گول میز کانفرنس میں اُس کے دادا کے بھائی محمد زمان خاں اور اُس کے خالو جہانگیر خاں بھی موجود تھے حالانکہ اُس گول میز کانفرنس میں شرکاء کی مکمل فہرست میں اِن دونوں اشخاص کا سرے سے نام ہی نہیں۔ یقین نہ آئے تو گوگل سرچ کرکے دیکھ لیں۔ 
پہلے سونامی اور نیا پاکستان پھر ریاستِ مدینہ اور اب ’’حقیقی آزادی‘‘ کا بیانیہ لے کر کپتان میدانِ عمل میں ہے۔ ایک طرف تو وہ امریکہ مخالف نعرہ لگا کرکہتا ہے ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ جبکہ دوسری طرف وہ امریکی سفیر سے ویڈیو کال بھی کرتا ہے۔ یہ وہی امریکی سفیر ہے جس کا کے پی کے حکومت نے ریڈکارپٹڈ استقبال کیا اور اُس سے 36 گاڑیاں تحفے میں لیں۔ یہ وہی امریکی غلام ہے جس نے امریکہ میں پی آر فرم کی 25 ہزار ڈالر ماہانہ پر خدمات حاصل کر رکھی ہیں تاکہ اُس کے ذریعے امریکہ سے تعلقات بحال کیے جا سکیں۔ یہ وہی عمران خاں ہے جسے 7 ملین امریکی ڈالر ممنوعہ فنڈنگ ہوئی۔ اِس کے باوجود بھی حیرت ہے کہ کپتان آج بھی امریکی مخالفت کا نعرہ لگا کر حواریوں کو بیوقوف بنا رہا ہے اور حواری بھی ایسے کہ بیوقوف بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے یہاں جان بوجھ کر شہبازگِل کا ذکر نہیں کیا کہ اول تو وہ اِس قابل ہی نہیں کہ اُسے زیرِبحث لایا جائے دوسرے وہ جو کچھ کر رہا ہے عنقریب اُس کا عوض بھی پا لے گا۔