خوشبو ساری خیال کی ہے

خوشبو ساری خیال کی ہے

گذشتہ کالم میں سرِ راہے ایک جملہ سرزد ہوا ”خوشبو ساری خیال کی ہے“ کامران شاہین کہ شاعر ابنِ شاعر ہیں، یہ جملہ سن کر اچھل پڑے۔ کہنے لگے، یہ جملہ بحر میں ہے، انتہائی موزوں مصرع ہے، اس پر منقبت ہونی چاہیے۔ کامران شاہین اور نعیم اختر کا دل سے شکر گزار ہوں، یہ احباب بڑی باقاعدگی سے منگل کی دوپہر آ جاتے ہیں۔ منگل میرا کالم ڈے ہوتا، منگل کے دن لکھتا ہوں اور بدھ کے روز کالم شائع ہوتا ہے، بڑے عرصے سے یہی ترتیب قائم ہے۔ یہ دونوں دوست میرا کالم سنتے ہیں، اس پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں، موضوع، مضمون اور اسلوب کا گونہ تنقیدی جائزہ لیتے ہیں، تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ کالم ارسال کر سکیں۔ اب زاہد رفیق کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بار بار یاد دہانی کے باوجود ہم کس طرح ہر ہفتے بڑی باقاعدگی سے تاخیر کے ساتھ کالم ارسال کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ کامران شاہین کی فرمائش پر پھر گزشتہ کالم کے آخر میں اس مصرع نما جملے پر گرہ لگائی گئی ”بستی اُنؐ کے جمال کی ہے“۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا مزارِ اقدس دلی کی جس بستی میں ہے، اسے بستی نظام الدینؒ کہتے ہیں۔ ماضی بعید میں اس آبادی کا نام ”غیاث پور“ تھا اور یہ دلی سے کافی فاصلے پر واقع تھی۔ دلی کے شور شرابے سے اُکتا کر حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے اپنے درس و تدریس کا ادارہ جسے اس زمانے میں خانقاہ کہتے تھے، اس جگہ یعنی غیاث پور منتقل کیا تھا۔ یہاں صبح شام رسمی و غیر رسمی مجالسِ گفتگو برپا رہتیں، وعظ و نصیحت کے دروس کا سلسلہ جاری ہوتا، مسافروں کے لیے کھانے اور رہائش کا بھی خوب انتظام ہوتا، نادار اور مسکین عوام کے لیے طعام المسکین یعنی لنگر بھی اس خانقاہ کی خاص نشانی تھی۔ آج بھی بھوکے پیٹ لوگ، بلاتخصیصِ مذہب و ملت یہاں آتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے لیے بھی لے کر جاتے ہیں۔ یہ بات ہمیں سید طاہر نظامی نے ایک نشست میں بتائی۔ بتایا گیا کہ ہندو لوگ بھی یہاں سے کھانا کھاتے ہیں اور ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ ایک دن میرے آنکھوں دیکھے منظر نے اس بات کی تصدیق کر دی۔ وفد کے ہمراہ حاضری کے بعد میں دیگر زائرین کے ہمراہ بس میں بیٹھا باقی مسافروں کا انتظار کر رہا تھا، کھڑکی سے باہر کا منظر ایک مشینی انداز میں آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا تھا، دیکھا کہ ایک ہندو باپ اپنی پانچ چھ برس کی بچی کی انگلی پکڑے جا رہا تھا، لباس کی تراش خراش میں فرق مذہب کا فرق بھی بتا دیتا ہے۔ بیٹی باپ کے ساتھ لہک لہک کر باتیں کر رہی تھی اور اٹھکیلیاں بھرتی ہوئی انگلی تھامے چل رہی تھی، ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے ابھی ابھی اس کی کوئی من پسند چیز والد نے اسے لے کر دی ہے، باپ کے دوسرے ہاتھ میں لنگر تھا، شاپر میں وہی کھانا تھا جو کچھ دیر قبل ہم بھی خانقاہ کے صحن میں کھا کر رخصت ہوئے تھے۔
دِلّی روانہ ہونے سے ایک دن قبل صاحبزادہ کاشف محمود نے ہمیں سید طاہر نظامی صاحب کا فون نمبر دیا تھا، نظامی صاحب وہاں دیوان مقرر ہیں، اکثر پاکستان تشریف لاتے ہیں۔ گزشتہ سے پیوستہ برس مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر محفلِ نعت میں مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔ خانقاہ شریف میں پہلے ہی دن حاضری کے موقع پر اچانک دریافت ہو گئے۔ یہ معلوم ہونے پر 
کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، ہمیں اپنے حجرے میں لے گئے، خوب خاطر تواضع کی، چائے پلائی اور بڑے اصرار سے کھانا بھی کھلایا۔ ہم حیران، ہم ایسے عامی پر یہ کیوں ہیں مہربان، راز کھلا کہ بیشتر اس کے ہم انہیں پہچانتے، یہ ہمیں ہمارے مرشد کے حوالے سے پہچان چکے تھے۔ ان سے یہ پہلی ملاقات تھی لیکن ایسا معلوم پڑتا تھا جیسے ان سے مل چکا ہوں ”پہلی بار سے بھی پہلے“۔ روایتی سجادہ نشینوں کے برعکس انہیں انتہائی سادہ منش، مہمان نواز اور درویش صفت پایا۔ یہ راز بھی کھلا کہ آپ کسی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت بھی ہیں، وگرنہ عام طور دیکھا گیا ہے کہ جملہ سجادگان اپنے روحانی سفر کو اس اعتبار سے ”پرباش“ سمجھتے ہیں کہ پدرم سلطان بود۔ یہ لوگ زائرین کی خدمت کرنے اور پھر ان سے خدمت کرانے ہی کو اپنے لیے کافی سمجھ لیتے ہیں۔ زندہ نسبت زندگی دے گی۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ بڑے واشگاف الفاظ میں فرمایا کرتے کہ اصلاحِ نفس کے لیے کسی زندہ گوشت پوشت والے انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ضروری ہوتا ہے، صاحبِ مزار سے ”بیعت“ ہونے کا تصور درست نہیں۔ اس بات کی تصدیق ”فواید الفواد“ میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات سے بھی ہوتی ہے۔ اس میں واقعہ درج ہے کہ ایک مرتبہ بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار اقدس پر حاضر ہوئے، وہاں سر منڈوا لیا اور کہا کہ میں خواجہ بختیار کاکیؒ کا مرید ہو گیا ہوں۔ اس زمانے میں مرید ہونے کے بعد لوگ اپنا سر منڈوا لیتے تھے اور یہ بیعت ہونے کی نشانی ہوا کرتی۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ سے منقول ہے کہ جب یہ خبر خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ تک پہنچی تو آپؒ نے فرمایا، بے شک خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ہمارے مرشد ہیں لیکن بیعت یوں نہیں ہوتی، بیعت کے لیے کسی صاحبِ ارشاد کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہوتا ہے۔ درحقیقت حق کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حق حق کو نہیں کاٹتا۔ جوشِ عقیدت میں کوئی لاکھ اپنے موقف کے حق میں دلیلیں دے لیکن بات وہی سچ ہے جو سچے کی زبان سے نکلتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کوئی سچا کسی سچی بات کو نہیں جھٹلاتا۔ اہلِ صفا یعنی صوفیاء کا راستہ اس لیے برحق ہے کہ یہاں چودہ سو برس ایک ہی سچائی چلتی چلی آ رہی ہے۔ اصحابِ صفہ سے لے کر آج تک ہر صوفی جن بنیادی اصولوں پر کاربند ہے، وہ ہے مادی منفعت کے لیے مصلحت اندیشی سے دور ہونا، منصب، دولت اور شہرت کی چکا چوند سے بیزار ہونا، خدمتِ خلق میں بے لوث ہونا اور اپنے اور اپنے خدا کے درمیان کسی انسانی واسطے کو برحق تسلیم کرنا۔
ایک دن سیّد طاہر نظامی صاحب کے حجرے میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، لمبی لمبی زلفوں والے، بالکل عام سے لباس میں لوگوں کے ہجوم سے کچھ ہٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں انہیں کیسے معلوم ہوا کہ ہمارے ساتھ ایک شاعر بھی محوِ سفر ہے۔ یوسف واصفی اوریجنل اور بے تکلف شاعر ہیں جبکہ ہماری شاعری بتکلف ہے۔ ہمیں اپنی نثر کو شاعری میں ڈھالنا ہوتا ہے، یوسف سوچتا بھی شعر میں ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس درویش کا نام بھی یوسف تھا۔ ”ہاتف“ تخلص کرتے تھے۔ وہ فی الواقع ایسے لباس میں تھے جس پر گدڑی کی اصطلاح صادق آ سکتی ہے، احادیث مبارکہ کے مصداق اس درویش کا حلیہ واقعی ایسا تھا کہ وہ کسی محفل میں جائیں تو اہلِ محفل ان کے لیے جگہ خالی نہ کریں۔ یوسف ہاتف نامی درویش نے ہمیں ایک کونے میں لے جا کر اپنی شاعری سے خوب خوب نوازا۔ ابتدا میں ہم ان کا کلام اخلاقاً سنتے رہے لیکن بہت جلد ان کے قادرالکلام ہونے کا اندازہ ہو گیا۔ طویل مگر رواں اور مترنم بحور میں شعر کہتے ہیں۔ انہیں اپنا کلام حفظ تھا۔ حمد، نعت اور منقبت کی صورت میں ان کے کلام سے خوب محظوظ ہونے کا موقع ملا۔ علیگڑھ سے تعلق تھا، بتانے لگے کہ سید طاہر نظامی میرے پیر بھائی ہیں، ہم ایک ہی جگہ بیعت ہیں۔ جواب آں غزل کے طور پر ہم کچھ بھی پیش نہ کر سکے کہ حالتِ سفر میں تھے اور اپنی بیاضوں یعنی لیپ ٹاپ سے بے بہرہ تھے۔ یوں بھی کسی زیارت کو جاتے ہوئے ہم بالکل بلینک، صاف سپاٹ ہو کر جاتے ہیں …… خود کو شاعر، ادیب، مصنف، ڈاکٹر یا کالم نگار کے طور پر ساتھ ساتھ لیے نہیں پھرتے، بلکہ ایک عام زائر کی طرح لائنوں میں کھڑے ہو کر دھکم پیل میں حاضری دیتے ہیں، لائن میں لگے ہوئے سائلوں کے ساتھ لنگر وصول کرتے ہیں اور صحن میں سب کے ساتھ مل بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ جن کا یہ نظام ہے، وہ ہمیں ایک عام امتی، عام زائر اور قطار میں لگے ہوئے ایک خستہ حال سائل کے طور پر بھی قبول کر لیں تو ہمارے لیے کافی ہے، یہ ہماری حیثیت سے زیادہ کا دان ہوگا۔
ہمارا قلم اس قابل کہاں کہ محبوبِ الٰہیؒ کی شان میں کچھ رقم کر سکیں، ہاں! ان کی بستی کو موضوعِ سخن بنانے کی جسارت کی ہے، اسی مختصر مذکورہ بحر میں۔ پہلے ایک قطعہ اور پھر چند اشعار اپنے قارئین کے ذوقِ سلیم کی نذر!
دل کی بستی نظامؒ کی ہے
خسروؒ کے پی کے نام کی ہے
اس کوچہ دل براں پہ اظہر
رحمت خیرالانعامؐ کی ہے
بستی نظام الدینؒ میں وفورِ حسن دیکھنے میں آتا ہے، اگر کوئی دیکھنے والا ہو۔ یہاں بل کھاتی ہوئی گلیاں حرمِ کعبہ کی گلیاں یاد دلاتی ہیں، اگر کوئی یاد کرنے والا ہو۔ ان گلیوں سے گذرتے ہوئے مکہ کی خوشبو اورvibes محسوس ہوتی ہیں۔ سود و زیاں اور فتاویٰ کی جمع تفریق سے بالا ہو کر یہاں خانقاہ کے صحن میں قوال سے کوئی قول سنیں تو قول ہی ”بے خود کیے دیتے ہیں“ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے قولِ الست کی کوئی تان چھڑ گئی ہے…… یہ قول بھی دم بدم جاری ہے۔ اسی مشکبو بستی کو یاد کرتے ہوئے چند اشعار قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے:
خوشبو ساری خیال کی ہے
بستی اُنؐ کے جمال کی ہے
بستی یہ دل میں بس گئی ہے
دم دم ساعت وصال کی ہے
یہ چھب، ڈھب حسنِ خوب و خوشتر
خوبی اس خوش خصالؐ کی ہے
خسروؒ اپنے نظامؒ کا ہے
قائم جس نے مثال کی ہے
خسروؐ اب تک سَرُور میں ہے
پی سے جو پی، کمال کی ہے
بس اُنؒ کی یاد کے دیے نے
دل کی دنیا بحال کی ہے
اُنؒ کی آہٹ ہے شاید اظہر
دل نے دم دم دھمال کی ہے