صرف اپنی تخلیق سے محبت

 صرف اپنی تخلیق سے محبت

جب کوئی فنکار کچھ تخلیق کرتا ہے تو وہ ایک اذیت ناک کرب اور ذہنی ہیجان سے گزرتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے بچے کو جنم دیتے ہوئے عورت ایک اذیت اور ذہنی ہیجان سے گزرتی ہے۔ گویا تخلیقی عمل زچگی کے عمل جیسا ہے۔ شروع سے اب تک دنیا کی کوئی ماں ایسی نہیں جو زچگی کے درد کو ناقابل برداشت نہ بتاتی ہو مگر جونہی یہ عمل پورا ہوتا ہے اور بچہ جنم لے لیتا ہے تو وہ ایک سکون میں آجاتی ہے۔ پھر اس کی سب سے پہلی خواہش بچے کے بارے میں جاننے کی ہوتی ہے۔وہ جاننا چاہتی ہے کہ اس کا بچہ جسے اس نے جنم دیا کیساہے، شکل و صورت اور صحت کے اعتبار سے کس طرح کا ہے، دوسرے لوگ بچے کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ بچے کو اگر کوئی مسئلہ ہو تو وہ پریشان ہوجاتی ہے۔ اگر بچہ شکل و صورت اور صحت کے اعتبار سے اچھا ہو تو وہ بہت خوش ہوتی ہے اور اس پر پھولے نہیں سماتی۔ پھر وہی ماں آئندہ آنے والے دنوں میں اپنے بچے کی تمام حرکات و سکنات اور عادات کے بارے میں فکرمند رہتی ہے۔ بالکل ایسے ہی فنکار ایک ماں کی طرح ہی ہے۔ جو کچھ وہ تخلیق کرتا ہے اس شے کے تخلیق ہونے کے عمل کے دوران وہ ماں کی طرح ناقابل برداشت درد سے گزر رہا ہوتا ہے۔ پھر جونہی تخلیق مکمل ہوتی ہے اسے سکون آجاتا ہے۔ اب اس کی نفسیات تازہ تازہ بچے کو جنم دینے والی ماں جیسی ہی ہوتی ہے۔ فنکار اپنا شاہکار پیش کرنے کے بعد سب سے پہلے اپنی تخلیق کے بارے میں جاننا چاہتا ہے کہ اس کی تخلیق کیسی ہے، لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اگر تنقید ہو تو وہ دلبرداشتہ ہوتا ہے اور اگر تعریف ہو تو فنکار کا پھولے نہ سماتے ہوئے ایڑھیاں اٹھاکر چلنا ایک لازمی امر ہے۔ جس طرح بچے سے مقدر کہیں نہ کہیں ضرور جڑے ہوتے ہیں ویسے ہی فنکار کی تخلیق سے مقدر کا تھوڑا بہت تعلق ضرور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات اوسط درجے کی شکل و صورت والوں کی شادیاں اچھی شکل و صورت والوں اور اچھے خاندانوں میں ہو جاتی ہیں جبکہ بعض اوقات اچھے درجے کی شکل و صورت والوں کی شادیاں یاتو ہوتی نہیں ہیں یا اچھے خاندانوں میں نہیں ہو پاتیں۔ بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اردگرد اونچے عہدوں پر اوسط درجے یا اس سے کم کی صلاحیتوں والے افراد براجمان ہیں جبکہ بعض اوقات بہترین ذہنی و تعلیمی صلاحیتوں والے افراد یا تو بے روزگار ہیں یا بہت ہی جونیئر حیثیت میں رہنے کے باعث نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ بالکل ایسے ہی تخلیقات کے حوالے سے ہم بعض اوقات دیکھتے ہیں کہ بہت 
عام سی پینٹنگ، شاعری، میوزک یا کچھ اور بہت ہِٹ ہو جاتی ہے جبکہ اسی قسم کی بہترین تخلیقات کو بعض اوقات پرواز کے لیے پر بھی نہیں ملتے۔ بعض اوقات ہم محسوس کرتے ہیں کہ بہت ہی عام تحریر والے کالم بڑے اخبارات و رسائل کی نمایاں جگہ پر شائع ہوتے ہیں جبکہ بعض اوقات اُن سے کئی درجے عمدہ تحریر اور تازہ خیالات والے کالم ایسا اونچا مقام حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات کسی کی اچھی نظر بچے کے مقدر بدل 
دیتی ہے ویسے ہی بعض اوقات کسی کالم نگار پر کسی بڑے کی نظر اس کے ”کالمی مقدر“ بدل دیتی ہے۔ بعض اوقات جیسے چالاک یا سمجھدار ماں اپنے بچے کو زندگی میں اونچا مقام دلوا دیتی ہے، ویسے ہی بعض اوقات چالاک یا سمجھدار فنکار اپنی معمولی تخلیق کو بہتر مقام دلوا لیتے ہیں اور حکمرانوں سے انعام و اکرام بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھی ماں اپنے بچوں کی وجہ سے مشکل میں آجاتی ہے، ویسے ہی کبھی کبھی فنکار اپنی تخلیق کے حوالے سے مشکلات میں آجاتے ہیں، خاص طور پر جب ان کی تخلیق بااختیار افراد کو ڈسٹرب کرنے لگے۔ جس طرح بچے کے اچھے مقدروں پر ماں خوش ہوتی ہے اور کم اچھے پر افسردہ ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی جذبات فنکار اپنی تخلیق کے حوالے سے رکھتا ہے۔ جیسے بچہ اچھا ہو یا برا، کالا ہو یا گورا، خوبصورت ہویا بھدا، ماں کے لیے چاند کا ٹکڑا ہی ہوتا ہے اور وہ اپنے بچے کو دنیا کے تمام دوسرے بچوں سے زیادہ فوقیت دیتی ہے، بالکل ایسے ہی فنکار کے نزدیک اس کی تخلیق سب سے اچھی ہوتی ہے اور وہ اگر شعوری طور پر دوسروں کی تخلیق کو اپنی سے بہتر تسلیم کر بھی لے تب بھی لاشعوری طور پر اپنی ہی تخلیق کو بہترین مانتا ہے۔ جس طرح ماں ہر وقت اپنے بچے کی ترقی کے لیے فکرمند ہوتی ہے، کوششیں کرتی ہے اور دعائیں کرتی ہے، ویسے ہی فنکار ہر وقت اپنی تخلیق کی پذیرائی کے لیے کوششیں کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست ہوگا کہ ماں اور فن کار دونوں ملتے جلتے ہیں لیکن یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ بعض اوقات ایک ماں دوسری ماں کے کسی درد کا خیال نہیں رکھتی اور دوسروں کی اولاد کو بیکار یا کمتر شے سمجھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر طرف چین ہی چین نہ ہوتا؟