نواز شریف کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل خارج

نواز شریف کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل خارج
کیپشن: احتساب عدالت نے گذشتہ برس 6 جولائی کو نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔۔۔۔فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ايون فيلڈ ريفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف  ان کی صاحبزادی مریم نواز   اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کالعدم قرار دینے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی احتساب بیورو کی اپيل خارج کر دی۔

چيف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آج کیس کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار، جسٹس مشير عالم اور جسٹس مظہر عالم شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ضمانت منسوخی کے قواعد کے بارے میں بتائیں۔ ضمانت منسوخی کے پیرامیٹر آپ جانتے ہیں اور وہ کون سے پیرا میٹر ہیں جن پر ضمانت خارج ہو سکتی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ شواہد کے مطابق سزا بھی نہیں بنتی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ نے ضمانت دینے کا اپنا اختیار استعمال کیا۔

نیب وکیل نے دلائل کے دوران کہا کہ سزا معطلی یا ضمانت کی درخواست میں کیس کے میرٹ پر نہیں جایا جاتا۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر ضمانت منسوخ کریں؟

جس پر نیب وکیل نے جواب دیا کہ ہائیکورٹ نے نامساعد حالات کے بغیر ضمانت دے دی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ نیب کے راستے میں کیا مشکل ہے جبکہ ضمانت کا حکم عبوری ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضمانت ہائیکورٹ دے چکی ہے اب کس بنیاد پر منسوخ کریں۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ نیب کا قانون خصوصی قانون ہے اور خصوصی حالات میں ضمانت ہو سکتی ہے۔ تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہو سکتا ہے ہائیکورٹ کا ضمانت دینے کا اصول غلط ہو۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ نے اپنی آبزرویشن کو خود عبوری نوعیت کی قرار دیا اور ضمانت کی اپیل کا غلط استعمال ہو تو وجہ منسوخی بن سکتی ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کا معطلی کا فیصلہ طویل ہے اور فیصلہ مختصر بھی لکھا جا سکتا تھا۔

انہوں نے مزید استفسار کیا کہ نواز شریف اس وقت آزاد شخص نہیں اور جو شخص آزاد نہیں اس کی ضمانت کیوں منسوخ کرانا چاہتے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ عارضی ہے اور ہم اس میں مداخلت نہیں کر رہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف نے ضمانت کا غلط استعمال نہیں کیا اور ٹرائل کورٹ میں مسلسل پیش ہوتے رہے اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے نواز شریف سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کے خلاف نیب کی اپیل خارج کر دی۔

خیال رہے کہ احتساب عدالت نے گذشتہ برس 6 جولائی کو نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جسے بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے 19 ستمبر کو معطل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔