بہتر معاشرے کے لئے اولادپر فیصلے مسلط نہ کریں ، خلیل الرحمان قمر

بہتر معاشرے کے لئے اولادپر فیصلے مسلط نہ کریں ، خلیل الرحمان قمر
سورس: سکرین شارٹ


پاکستان کے معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے کہا ہے کہ اچھے معاشرے کی تشکیل کے لئے ہمیں اپنے بچوں پر فیصلے مسلط کرنے سے باز رہناہوگا ۔ ہمیں اپنی بہنوں بیٹیوں اوربیٹوں کو یہ حق دینا ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی کے فیصلے کرسکیں ۔ خواتین دنیاوی حسد کی وجہ سے شوہر کو کرپشن کی طرف نہ دھکیلیں ، حرام کا پیسہ رئیل سٹیٹ اور عورت پر خرچ ہوتا ہے ۔کسی کے لئے دیوداس بننا غلط ہے۔ وہ نیو نیوز کے مارننگ شو میں میزبان نبیہ اعجاز سے گفتگو کررہے تھے ۔ 

ممتاز مصنف اور ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کا کہنا تھا کہ میں آج کل ڈرامہ"  میں منٹو نہیں ہوں " لکھ رہا ہوں جس میں ہمایوں سعید اور مایا علی نمایاں کردار ادا کررہی ہیں ۔ یہ ڈرامہ منٹو کے بارے میں نہیں ہے یہ بولڈنیس کا سمبل ہے لیکن میرا ہیرو بولڈ نہیں ہے ۔ میں منٹو نہیں ہوں میں پیغام ہے کہ پیار آپ کو طاقت دیتا ہے اگر آپ  کسی سے پیار کرتے ہیں تو بہادر ہیں اورنفرت کرنے والے لوگ اندر سے بزدل اور حاسد ہوتے ہیں ۔ 

ان کا کہنا تھا کہ عشق جب ہوتا ہے تو وہ آپ کو مکمل کردیتا ہے کوئی کسے کو ملے یا نہ ملے یہ کوئی ایشو نہیں ہے عشق یا محبت کا ہوجانا ہی کامیابی ہے ۔عشق کے بغیر تو دنیا ہی نہیں ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ  پہلی والی جنریشنز میں بھی پیار ہوتا تھا اب بھی ہوتا ہے لیکن آج کل گیجٹس زیادہ ہوگئے ہیں پہلے کم تھے ۔ ہمارے زمانے میں جب عشق ہوتا تھا تو اس کا پتہ نہیں چلتا تھا لیکن آج کل عشق کا پتہ چل جاتا ہے ۔ لڑکے اور لڑکی کے تعلق میں کچھ بھی نہیں بدلا کام وہی پرانا ہے بس آجکل جگہ ،کپڑے اورانداز بدل گئے ہیں ۔ لبرل ہونا ایک طرح سے بے غیرت ہونا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سوسائٹی تبدیل ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہے اس دقت دو مختلف ادوار کے درمیان جمود پرہماری رفتار رکی ہوئی ہے کچھ بھی نہیں بدلا سب کچھ وہی ہے ۔ جب آ پ محبت کرتے ہیں تو آپ کسی کا انتخاب کرتے ہیں اور انتخاب کرتے وقت غلطی بھی ہوسکتی ہے لیکن غلطی ہونے کے بعد لکیر پیٹنا ٹھیک نہیں آگے بڑھ جانا چاہئے ۔ دیوداس بننا ،لڑکی کے لئے یا لڑکے کے لئے کیرئیر کا بیڑہ غرق کرنا بیوقوفی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں ترس گیا کہ میرے معاشرے کے ماہر نفسیات کتابوں سے باہر نکلیں اور ہمارے ماحول کے مطابق بات کریں کیونکہ ہمارا ماحول لکھی گئی کتابوں کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے ۔ میں گارنٹی کرتاہوں کہ آج بھی جس گھر میں حلال کمایااور کھایا جارہا ہے وہاں سے آوازیں نہیں آرہیں ۔ 

 انہوں نے کہا کہ ہماری سوسائٹی کرپٹ ہے اور اس کرپشن کی وجہ سے ہمارے گھر اندر سے ٹوٹ رہے ہیں ۔ پندرہ سولہ سال کی عمر تک بچے سمجھدار ہوجاتے ہیں اور ان کوپتہ چل جاتا ہے کہ ان کا باپ کتنا کماسکتا ہے لیکن جب پیسہ زیادہ آرہا ہوتا ہے تو باپ اپنے بچے کا ایک طرح سے کانا ہوجاتا ہے ۔ بچے کی منفی  سوچ کو ختم کرنے کے لئے اس کو ضرورت سے زیادہ پیسے دیئے جارہے ہیں۔بیوی کی ڈیمانڈ اور دنیاوی رکھ رکھاو کے لئے اس کوزیادہ پیسے دیئے جاتے ہیں تو جب یہ سارے لوگ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوتے ہیں تو وہ سب ایکدوسرے کے کانے ہوتے ہیں اور گھر کا سربراہ چونکہ سب کا کانا ہے اس لئے وہ اپنے حقوق اپنے قانون اور ضابطے کے مطابق کوئی بات نہیں کرسکتاہر گھر میں سب ایکدوسرے سے کمپرومائز کررہے ہیں ۔ 

خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ جو خواتین مارچ کرتی ہیں میں ان سے کہتا ہوں وہ قرآن پاک ہاتھ میں پکڑکر مارچ کریں اور یہ قسم کھائیں کہ ہمارا شوہر ہمارے گھر کے مرد جو کما کرلارہے ہیں خدا کی قسم ہم اس میں ہی گذارہ کریں گی ۔ جب بی وی حلال میں گذارہ کرنا شروع کردیتی ہے تو مرد کرپشن سے باز آجاتا ہے ۔ پچھلے پندرہ سال میں ملک کے کلچر کے ساتھ کھلواڑکیا گیا ۔ ساس نند بہو اور بھابھی ان کا نام لے کر عورت کو باقاعدہ گالی دی گئی اور گالی دینے والی بھی عورتیں ہی تھیں ۔ ہم نے نند  سا س اور بہو کے رشتے کو خراب کردیا ۔ اور جو یہ ڈرامہ عورت کے خلاف لکھ رہی تھی وہ اس وقت خود کسی کی بیوی کسی کی بہو اور نند تھی ۔ 

انہوں نے کہا کہ ہماری عوام ترس گئی ہے کہ وہ کچھ سیکھیں لیکن کچھ دکھانے والے سکھانے والے ہی نہیں ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ مسائل کے حل کے لئے ماہر نفسیات کے پاس جاﺅ تو یہ چونچلے تو امیر آدمی کے ہیں غریب آدمی کے پاس تو کھانے کے لئے روٹی نہیں ۔ غریب آدمی جب ٹی وی دیکھتا ہے تو وہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہاں پر کچھ ہے ہی نہیں ۔ 


ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ حسد ہے اس حسد نے ہی کرپشن کو جنم دیا اس حسد نے رشتوں کو کمزور کردیا ہے ۔ ہمارے ہاں طلاقوں اور میاں بیوی کے رشتوں کی خرابی وجہ بھی حسد ہی ہے ۔ میری سب والدین سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ جب آپ بیٹی کی شادی کرنے لگیں تو اس سے پوچھیں کہ کیا تم کولڑکا پسند ہے ۔ ایک لڑکی پچاس پچپن سال کے لئے کسی مرد کو اپنی زندگی میں شامل کرتی ہے تو یہ فیصلہ اس بچی کو کرنا چاہئے ناں کہ گھر کے لوگ اس بچی پر شادی مسلط کردیں  ۔ بچی کی مرضی جاننا اس کا پہلا شرعی حق بھی ہے ۔ جب وہ بچی اپنی مرضی کے خلاف کسی مرد کے پاس پچاس پچپن سال کے بیوی کی شکل میں جاتی ہے تو پھر وہ بدلہ لیتی ہے اور اس عورت کو بدلہ لینے کے لئے تلواراٹھانے کی ضرورت نہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ میں عورت مارچ کے خلاف ہوں پاکستان پہلے ہی بہت سے فرقوں میں بٹا ہوا اس وقت تو شائد ایک سو بہتر سے بھی زائدفرقے  ہوچکے ہیں ۔ اس کے بعد پھر جٹ ایسوسی ایشن بٹ ایسوسی  ایشن  گجر یونین ایچی سونین ارائیں ایسوسی ایشن فلاں ایسوسی ایشن اورپتہ نہیں کیا کیا ۔ ہم نے تو ملک کو فرقوں درفرقوں میں تقسیم کردیا ہے ایک وقت آئے گا جب سب کے اپنے اپنے ہتھیار ہوں گے اور یہ  آپس میں جھگڑیں گے ہر کوئی اپنے اپنے قبیلے کی بات کرے گا  ایسا تو سالوں پہلے قبائل کے نظام میں ہوتا تھا ۔ 

جب ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور عورتیں عورت مارچ کے ذریعے باہر نکلتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مردوں پر تھوک رہی ہیں ۔ اگرعورت اپنے حقوق کے لئے مارچ کریں تو کیا پھر مر د بھی مارچ کریں عورت مارچ نے تو ہمارے معاشرے کو اور بھی تقسیم کردیا ہے ۔ 

یہ بات سچ ہے کہ مردوں نے صدیوں سے عورت کو اس کے حقوق ہی نہیں دیئے لیکن اب جب ہم اس کے حقوق دینے کے لئے تیار ہوئے ہیں توعورتوں نے بیوقوفانہ کام شروع کردیا ہے کہ وہ مردوں کے حقوق میں سے حصہ مانگ رہی ہیں ۔ پہلے خواتین اپنے حقوق تو پہچانیں کہ ان کو کیا حقوق چاہئیں جب مردوں کے حقوق میں سے حصہ مانگیں گی تو آپ کو نہیں ملے گا۔ 
پچھلے بیس سالوں میں امریکا اور یورپ نے سوشل سائنسز میں جتنے بھی سکالر شپ پاکستانیوں کو دیئے ہیں وہ سب لڑکیوں کو دیئے ہیں اور ان کے جتنے بھی ایم فل اورپی ایچ ڈی کے تھیسز ہیں وہ سب اینٹی اسلامک اور اینٹی پاکستان ہیں ۔وہ باہر کے ملکوں میں خواتین کے رائٹس کا بیج بوتے ہیں جس کی فصل پاکستان میں اگتی ہے حالانکہ امریکا یورپ میں بھی خواتین کو حقوق نہیں ملتے جتنے امریکا میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہیں دنیا میں کہیں اتنی نہیں ہوتی ہمارا معاشرہ تو خواتین کی عزت کرتا ہے ۔  لیکن یورپ امریکا میں تو پیار سے بھی خاتون کو بچ کہہ کر بلاتے ہیں اور عورت مارچ والی ہماری خواتین اپنے نظام کو گالی دیتی ہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ مسائل کی ابتدا ہی وہاں سے ہوتی ہے جب لڑکی سے اس کی شادی کے وقت مرضی نہیں پوچھی جاتی ۔ ہمارے باپوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے ۔عورت مارچ سے اصل وجہ کے حل کی طرف نہیں جایا جارہا جو اصل مسائل ہیں ان کی طرف کسی کی سوچ نہیں ۔ ہمارا

معاشرہ تو ایسا ہے کہ لڑکی کو شام کو کہا جاتا ہے کہ صبح تمہاری فلاں سے شادی ہے جو ایک بہت بڑاگناہ ہے ۔ 

ایکسٹر ا میریٹل افیئرز پر ایک سوال میں خلیل الرحمان قمر نے کہا کہ مرد کو صرف سچا عشق روکتا ہے ۔ جتنی عورت مارچ میں خواتین ہیں ان میں سے اکثر نے کسی نہ کسی عورت کا حق مارا ہوا ہے ۔ ڈارمہ " میرے پاس تم ہو " میں بھی یہ ہی سمجھانا مقصود تھا کہ ظرف کو پیسوں سے مت ناپئے عزت وقار کو دولت سے نہ تولئے آپ خسارے میں چلے جائیں گے ۔ میں عورت کو برا نہیں کہتا عورت میرا فخر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کوئی وفادار اس لئے ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ  جان بوجھ کر بھی بیوفائی کے مواقع ضائع کردیتا ہے ۔ جس کو موقع نہیں ملا وہ شریف نہیں ہوسکتا شریف وہ ہے جس کو موقع ملا لیکن اس نے ضائع کردیا ۔میں عورت کے رتبے کو بہت بڑا سمجھتا ہوں کیونکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لئے بیوفائی کے بہت مواقع  ہوتے  ہیں لیکن وہ کثرت سے ان کو ضائع کرتی ہیں ۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ عورت میں نہ کی ہمت ہے لیکن مرد میں نہ کی ہمت نہیں اور یہ بات ہی اس کو مرد کے مقابلے میں بلند کردیتی ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ بیوفائی دونوں میں ہے فرق یہ ہے کہ مرد جب بیوفائی کرتا ہے تو ایک گھر کا نقصان ہوتا ہے لیکن جب عورت بیوفائی کرتی ہے تو ایک نسل کا نقصان ہوتا ہے ۔ میں دونوں کی بیوفائی کو اچھا نہیں سمجھتا اورمیں کسی مرد کوبیوفائی کی ترغیب بھی نہیں دے رہا لیکن عورت کو یہ سمجھاتا ہوں کہ خدا کے لئے آپ نہ کرو۔مرد بچہ پیدا کرتا ہے تو اس کو عورت بتاتی ہے کہ یہ تمہارا ہے اور وہ مان لیتا ہے اور جس روز عورت بچہ پیدا کرکے مرد کو کہے گی کہ یہ تمہارا ہے تو اس روز میں سمجھوں گا کہ عورت کی بیوفائی سے نسل خراب ہوتی ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ جب خواتین اچھی بیویاں بننا شروع ہوجائیں گی تو اچھی نسل پیدا ہونا شروع ہوجائے گی ۔ اس وقت ایکسٹرا میرٹیل افیئرزاپنے عروج پر ہیں ۔ کرپشن کا پیسہ دوجگہوں پر خرچ ہوتا ہے ایک رئیل سٹیٹ اور عورت پر خرچ ہوتا ہے ۔سب سے پہلی ذمہ داری باپوں کی ہے شرعی حق بہنوں اور بیٹیوں کو دے دیا جائے ۔ خواتین کی مرضی کے بغیر شادی نہ کی جائے ہماری خواتین باپ کی پگڑی اور بھائی کے جڑے ہاتھوں کی وجہ سے اپنی زندگی پر کمپرومائز کرجاتی ہیں ۔ جب عورت کا یہ حق نہ دیا جائے گا تو خواتین پستی رہیں گی ۔ 

ان کا کہنا تھا کہ آپ کی خوبصورتی برانڈ کی محتاج ہے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ خوبصورت نہیں ہیں یا پھر آپ خود سمجھتی ہیں کہ آپ خوبصورت نہیں ہیں اور اس جھوٹی خوبصورتی کے لئے مرد کو کرپشن کی طرف مائل نہ کریں ۔ خواتین کو یاد ہونا چاہئے کہ جب مرد حرام کے پیسے کمانے لگتا ہے تو پھر وہ حرام کے کام بھی کرتا ہے اور یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے یہ رول آف دی گیم ہے ۔
خواتین کو حکم ہے کہ جب ان کے شوہر گھر آئیں تو سجھ دھج جائیں لیکن ہمارے ہاں ہویہ رہا ہے کہ خواتین بازار جاتی ہیں تو سج دھج جاتی ہیں میلاد پر جاتی ہیں تو بن ٹھن کے جاتی ہیں لیکن جب شوہر گھر آتا ہے تو اس کا سامنا ایسے ہی کرتی ہیں حالانکہ جب آپ پہلی مرتبہ ملتی ہیں تو پچاس ہزار کا میک اپ کیا ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مائیں تربیت نہیں کرتیں مائیں صرف پالتی ہیں تربیت عورتیں کرتی ہیں تربیت ہمیشہ وہاں پر ہوتی ہے جہاں پر مذاکرات ہوتے ہیں ہمارے ہاں عورتیں بچوں کو باپ سے ڈرا دیتی ہیں جس سے بچوں اورباپ میں دوری پیدا ہوتی ہے ۔ بچوں سے باپ کا پیار ہونا بہت ضروری ہے ۔ ہمارے بچے دس سے پندرہ سال کی عمر میں باپ سے دور ہورہے ہوتے ہیں جب بچے باپ سے دور ہوں تو وہ تربیت کیسے لیں گے وہ بچے فلم اور ٹی وی سے تربیت لے رہے ہیں ۔ اگر ہم نے معاشرے کو بہتر کرنا ہے تو ہمیں اپنی بیٹیوں اپنی بہنوں کواپنے بچوں کو ان کی رضامندی سے شادی کرنا ہوگی تاکہ وہ ہمارے معاشرے میں بہتر خاندان بنا سکیں ۔ 
آدمی کا اصل روپ ہی سامنے تب آتا ہے جب اس کا کسی عورت سے تعلق بنتا ہے ۔ ہم نے بچپن سے پڑھا ہے کہ ماں اور بچے میں محبت ہوتی ہے یہ محبت نہیں یہ فطرت کا رشتہ ہوتا ہے محبت کو نبھانا پڑتا ہے اور فطرت کو نبھانا نہیں پڑتا ۔ بچہ اچھا ہو یا برا بچہ ماں کو چاہے گالی ہی دے بچے سے ماں نے محبت کرنی ہی کرنی ہے ۔