تعلیم۔۔کونسی کل سیدھی؟

Dr Lubna Zaheer, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

بار بار کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم ہمارے ہاں ایک ایسا اونٹ بن چکا ہے، جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ہمارے ہاں کئی تعلیمی پالیسیاں بن چکی ہیں۔کئی طویل اور قلیل مدتی منصوبے منظر عام پر آئے۔ ہر سیاسی جماعت اور آتا جاتا حکمران شعبہ تعلیم کی اصلاح احوال کے بڑے بڑے دعوے کرتا رہا۔ تاہم نتیجہ صفر بٹا صفر ۔ عمومی طور پردنیا بھر میں شعبہ تعلیم کے حوالے سے تین بنیادی اہداف ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا ٹارگٹ یہ ہوتا ہے کہ شرح خواندگی میں اضافہ کیا جائے۔ یعنی زیادہ سے زیادہ بچے اسکولوں میں داخل ہوں۔ دوسر ا نہایت اہم ہدف یہ ہوتا ہے کہ معیا ر تعلیم کو بہتر بنایا جائے۔ تیسرا ٹارگٹ یہ ہوتا ہے کہ فنی تعلیم یا ٹیکنیکل ایجوکیشن پر توجہ دی جائے۔ نوجوانوں کو مختلف مہارتیں سکھائی جائیں، تاکہ وہ اپنی روزی روٹی خوش اسلوبی سے کما سکیں۔اب پاکستان کی حالت ملاحظہ ہو۔ شرح خواندگی کا حال یہ ہے کہ ، افغانستان کو تو خیر جانے دیجئے، شرح خواندگی کے حوالے سے پاکستان خطے کے تمام ممالک میں سب سے آخر میں کھڑا ہے۔ ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ مگر اس گھمبیر مسئلے کے حل کیلئے ہم کوئی سنجیدہ کاوش ہوتے نہیں دیکھتے۔ کسی کو یہ فکر نہیں ستاتی کہ کوئی پالیسی سازی ہونی چاہیے۔ کسی حکومتی اجلاس کی خبر ہمیں دیکھنے سننے کو نہیں ملتی۔ ایک لمحے کو سوچیے کہ یہ بچے جب نوجوانی کی دہلیز تک پہنچیں گے تو ان کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ اپنا گزر بسر کس طرح کریں گے؟ کس طرح کی زندگی ان شہریوں کا مقدر بنے گی۔ معیار تعلیم کے حوالے سے بھی ہم پر بے نیاری کی کیفیت طاری ہے۔ بر سر اقتدار آنے سے قبل عمران خان، یکساں نظام تعلیم کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔فرماتے تھے کہ حکومت ملنے کے بعد سرکاری اور نجی اسکولوں کا فرق یکسر ختم کر دیں گے ۔ وزیر اعظم بننے کے بعد "یکساں نظام تعلیم" کا نعرہ  "یکساں نصاب تعلیم"  میں تبدیل ہو گیا۔ یکساں نصاب  کے حوالے سے بھی مختلف سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے سینٹ میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ یکساں نصاب میں ہماری حقیقی تاریخ ، قائد اعظم کے جمہوری نظریات ، آئین پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کے اسباب جیسے موضوعات شامل ہیں یا نہیں؟ بہرحال اس قصے کا تفصیلی ذکر پھر کسی کالم میں ۔
جہاں تک معیار تعلیم کا تعلق ہے ، سرکاری سکولوں کی حالت زار سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ جو شخص تھوڑا بہت بھی اس قابل ہوتا ہے، وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکول کے بجائے، گلی محلے کے پرائیویٹ اسکول میں داخل کروانا پسند کرتا ہے۔ جامعات کی حالت یہ ہے کہ برسوں سے نامور ماہرین تعلیم نوحہ کناں ہیں کہ معیار تعلیم گراوٹ کا شکار ہے اور بیشتر جامعات نے ڈگری بیچنے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ مگر متعلقہ اداروں کی طرف سے کوئی سنجیدہ کاوش ہوتی نظر نہیں آتی۔ جیسا کہ عرض کیا کہ مہذب ممالک میں شہریوں (خاص طور پر نوجوانوں ) کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف خصوصی طور پر راغب کیا جاتا ہے۔ یہ بات ریاست کی تعلیمی پالیسی کا حصہ ہوتی ہے کہ کم پڑھے لکھے نوجوانوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جائے۔ تاکہ وہ معاشرے کے کار آمد شہری بن کر اپنی زندگی گزارسکیں۔اگرچہ ہمارے ہاں نیوٹیک اور ٹیوٹا جیسے سرکاری ادارے قائم ہیں۔ فنی تعلیمی بورڈ اور دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔ مگر یہ سب کام کسی مناسب منصوبہ بندی کے بغیر، بے سمتی کی کیفیت میں ہو رہا ہے۔ اور نہایت محدود پیمانے پر۔ چند دن پہلے ایک صاحب سے گفتگو ہوئی۔کئی دہائیوں سے جو امریکہ میں مقیم ہیں اور وہاں ذاتی سٹورز کے مالک ہیں۔ کہنا ان کا یہ تھا کہ وہاں ہنر مند افراد ہم اسٹور کے مالکان سے زیادہ خوشحال ہیں۔ ایک پلمبر اور الیکٹریشن چند گھنٹوں کے کام کے کئی سو ڈالر وصول کرتا ہے۔ کہنے لگے کہ کوئی شخص امریکہ جیسے ملک میں آنے کا ارادہ باندھے تو مزدوری کیلئے آنے سے کہیں بہتر ہے کہ یا تو ڈگری لے کر آئے یا کوئی ہنر سیکھ کر۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہی صورتحال ہے۔ خود ہمارے ملک میں بھی ہنرمندی کی خاص اہمیت ہے۔ تاہم اس جانب ہمارے منصوبہ سازوں کی توجہ ہی نہیں۔ جب سیاسی بھاشن بازی اور پوائنٹ اسکورنگ ہی مقصد حیات بن کر رہ جائے تورسمی اور فنی تعلیم جیسے معاملے پر کون توجہ دے۔
اب ذرا کرونا کی صورتحال کا جائزہ لیجئے۔ ہمارے ہاں پہلے ہی شرح خواندگی کم ہے۔ معیار تعلیم گراوٹ کا شکار ہے۔ تعلیمی پالیسیاں بس فائلوں تک محدود ہیں۔ رہی سہی کسر کرونا نے پوری کر دی ہے۔کرونا کے ہنگام جس بھونڈے طریقے سے ہم نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طالب علموں کو تھوک کے حساب سے نمبروں سے نوازا اور امتحانی نتائج جاری کئے ، اس نے تعلیم کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ اگرچہ کرونا نے دنیا بھر کے ممالک کو متاثر کیا ہے۔ مگر کیا امریکہ ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک میں کرونا نہیں آیا؟چلیں یہ تو ترقی یافتہ ممالک ہے۔ ہم کہہ دیتے ہیں کہ ان سے ہمارا کیا مقابلہ۔ مگر ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کرونا پوری قوت سے حملہ آور ہوا۔ کیا بھارت یا کسی ملک نے تعلیم کے ساتھ اور امتحانی نتائج کیساتھ وہ سلوک کیا جو ہم نے پاکستان میں کیا؟ ہمارا دعویٰ تو یہ تھا کہ ہم نے کرونا پر بہت اچھے طریقے سے قابو پایا ہے۔ اچھی منصوبہ بندی میں بھارت تو بھارت بہت سے مغربی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا کرونا کے سارے اثرات بد شعبہ تعلیم پر نازل ہو گئے ؟
ہر ہرتعلیمی بورڈ میں بیسیوں طالب علموں نے سو فیصد نمبر حاصل کر لئے۔ کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں سو فیصد نمبر حاصل کرنے کی روایت اور رجحان ہے؟ اور وہ بھی تب، جب صرف دو یا تین مضامین کے امتحانات لئے جائیں۔ اور باقی مضامین کی مارکنگ بس تکے اور اندازے سے کی جائے۔ ہمارے مذہب اسلام میں تو عبادت میں بھی اعتدال کا حکم ہے۔ ہم نے نمبر تقسیم کرتے وقت بے اعتدالی کی انتہا کر دی۔ کہتے ہیں کہ غلطی بانجھ نہیں ہوتی۔ بلکہ انڈے بچے دیتی ہے۔ کرونا کے ہنگام ، تعلیمی نظام کو منظم کرنے میں جو غفلت برتی گئی ، وہ غلطی بھی انڈے بچے دئیے جا رہی ہے۔ چند دن پہلے کی خبر ہے کہ انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں نوے فیصد نمبر حاصل کرنے والے بیشتر طالب علم جامعہ کراچی کے انٹری ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔یقینا یہی صورتحال دیگر صوبوں میں بھی ہو گی ۔ سوال یہ ہے کہ ان بچوں کو اندھا دھند نمبر بانٹ کر ہم نے کیا حاصل کیا؟
دنیا کے اہم ممالک میں قائم بھارتی سفارت خانے پاکستان کی تعلیمی خبروں پر نگاہ رکھتے ہیں۔ تمام منفی خبروں کو اکھٹا کر کے وقتا فوقتا ان ممالک کے اہم اداروں، دفاتر اور تعلیمی اداروں تک پہنچایا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان ممالک میں پاکستانیوں کیلئے اعلیٰ تعلیم اور اچھی نوکروں کا راستہ روکا جائے۔ کرونا کے ہنگام ہم نے اپنے شعبہ تعلیم اور طالب علموں کیساتھ جو کیا، دنیا نے اسے دیکھا ہے۔ نوے پچانوے فیصد نمبر حاصل کرنے والے نوجوان پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ نوجوان بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلہ کیسے حاصل کر سکیں گے؟ یہی مشکل انہیں نوکریوں کے حصول کے وقت درپیش ہو گی۔ لگتا یہ ہے کہ اس امتحانی نظام سے گزرنے والی پوری نسل کو برسوں تلک اس ناکردہ جرم کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ 

مصنف کے بارے میں