گناہ بے لذت

گناہ بے لذت

چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا اور اگلے دن پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر کے اسے گورنر ہاؤس بھی بھجوا دیا جو اسی رات گورنر کو موصول بھی ہو گئی اب وہ اس پر دستخط کرتے ہیں یا نہیں لیکن اڑتالیس گھنٹے بعد پنجاب اسمبلی از خود تحلیل ہو جائے گی۔ اعتماد کے ووٹ سے فقط چند گھنٹے پہلے تک جس طرح رانا صاحب اور عطا تارڑ چوہدری پرویز الٰہی کی ناکامی کی باتیں کر رہے تھے اس سے لگتا تھا کہ کچھ تو مزاحمت ہو گی لیکن صبح لاہور ہائیکورٹ میں جس طرح گورنر پنجاب کے وکیل نے ہتھیار ڈالے اس کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ 
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک  قطرۂ خوں نہ نکلا 
 موجودہ حکومت جس طرح آئی اور اس کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے یا یہ کہہ لیں کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ نواز لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے یہ حکومت ایک گناہ بے لذت ہے کہ جس میں کھایا پیا کچھ نہیں اور الٹا بارہ آنے کا گلاس توڑ کر واپس گھر لوٹ آئے۔یہ حکومت پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ثابت ہوئی ہے۔ جس دن 27مارچ کو راولپنڈی کے جلسے میں عمران خان نے ایک سفید کاغذ کو سائفر بنا کر سازشی بیانیہ کی ابتدا کی تھی اوراس کے بعد پورے میڈیا بشمول سوشل میڈیا پر جس طرح عمران خان کی نام نہاد مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر ایک تاثر قائم کیا گیا اور اسی تاثر کے زیر اثر ضمنی انتخابات میں فتح دلائی گئی تو اندازہ ہو گیا تھا کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ تو ہے لیکن اس گڑبڑ کی کڑیاں نہیں مل رہی تھیں لیکن جیسے ہی مونس الٰہی اور پرویز الٰہی نے کہا کہ عدم اعتماد کے موقع پر جنرل باجوہ نے انھیں عمران کی طرف جانے کا کہا تھا تو ساری کڑیاں بھی مل گئیں اور آنکھوں کے آگے جو دھندلا پن تھا وہ بھی دور ہو گیا اور پتا چل گیا کہ معاملہ صرف نومبر کے مہینہ میں فیض یاب ہونے کا نہیں تھا بلکہ بات اس سے بھی کہیں آگے کی تھی۔
جنرل فیض کا نام لے کر ڈرانا تو ایک ٹریپ تھا کہ جس میں پی ڈی ایم کی قیادت پھنس گئی لیکن ہمیں حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مچھلی بھی جب کسی جال میں پھنستی ہے تو اس سے نکلنے کے لئے کوشش کرتی ہے تڑپتی ہے یہ الگ بات ہے کہ نکل نہیں پاتی لیکن موجودہ حکومت اور خاص طور پر نواز لیگ کے طرز عمل 
کو دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ یہ اس جال سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ اس لئے کہ ہمیں حکومتی زعماء کی جانب سے ایسی کوئی کوشش نظر ہی نہیں آ رہی کہ یہ جس ٹریپ میں پھنس چکے ہیں اور جس کا انھیں بخوبی احساس بھی ہے اور علم بھی کہ دودھ پیتے بچے نہیں لیکن اس سے نکلنے کی کوئی موثر کوشش نظر نہیں آتی بلکہ ایسے لگتا ہے کہ راضی خوشی اس ٹریپ میں پھنسنا قبول کیا اور اب نکلنا بھی نہیں چاہتے۔میاں نواز شریف لندن سے پاکستان نہیں آ رہے۔ اس کی تو سمجھ آتی ہے کہ انھیں یقینا تحفظات ہوں گے لیکن یا حیرت کہ گورنر ہاؤس سے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا فرمان جاری ہوتا ہے اور اعتماد کا ووٹ نہ لینے کی صورت میں نواز لیگ کا وزارت اعلیٰ کا جو امیدوار ہے وہ گذشتہ کئی ماہ سے لندن میں قیام پذیر ہے۔ نواز لیگ کا ووٹ بنک میاں نواز شریف کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کے بعد وہ مریم نواز کو لیڈر مانتا ہے اور جس طرح اب مریم نواز کو نواز لیگ میں عہدہ دیا گیا ہے تو اس سے صاف نظر آ رہا ہے کہ اگلے انتخابات میں نواز لیگ کی جانب سے وزارت عظمیٰ کی امیدوار مریم نواز ہوں گی لیکن کیا خوب سیاست ہو رہی ہے کہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا امید وار بھی لندن میں اور وفاق میں وزارت عظمیٰ کی امید وار بھی لندن میں اور ان کی وطن واپسی کی تاریخیں تو دی جاتی ہیں لیکن حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اعتماد کے ووٹ کو ناکام بنانے کے لئے وفاقی حکومت کے پاس کافی وقت تھا اور وفاق کے پاس کس حد تک وسائل اور طاقت ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1988میں جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ طویل مارشل لاء کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو ابھی اس حکومت کو آئے ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی گئی۔ اب یہ بات ذہن میں رہے کہ فوج بھی حکومت کے خلاف تھی اور اس وقت کے صدر غلام اسحق خان کہ جنھیں 58ٹو بی کے ساتھ ساتھ بہت سے اختیارات حاصل تھے اور اسی بنا پر اس وقت کا صدر بہت زیادہ طاقتور تصور کیا جاتا تھا۔ اب فوج بھی خلاف، عدلیہ بھی خلاف، صدر بھی خلاف اور جب فوج اور عدلیہ خلاف ہو تو سول بیوروکریسی کا خلاف ہونا تو ایک لازمی امر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور اس پر مزید ستم یہ کہ کم عمر وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے جتنے بابے تھے ان کی اکثریت پارٹی چھوڑ چکی تھی لیکن اس کے باوجود بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنایا گیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس بہت سے اختیارات اور وسائل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ بہت سے معاملات میں ون ٹو کا فور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے بر عکس موجودہ وفاقی حکومت میں انتہائی تجربہ کار وزراء ہیں اور ان کو اچھا خاصا وقت بھی ملالیکن مقام حیرت ہے کہ یہ پھر بھی کچھ نہیں کر سکے اور عمران خان جو چاہتے تھے وہ کر دکھایا اور پی ڈی ایم کی حکومت کو ایک قسم کی شہ مات دے دی۔ایک جانب پنجاب میں دعوؤں کے باوجود ناکام ہونا اور دوسری جانب کراچی میں متحدہ کے دھڑوں کا اچانک متحد ہونا اور پھر وہی پرانی ڈگر پر آ کر بلیک میلنگ کی سیاست کرنا اور ڈالر اور آٹا کی افغانستان سمگلنگ دیکھ کر بہت سی ان کہی داستانیں اور خدشات جنم لینا شروع کر دیتے ہیں خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ جتنے مشکل معاشی فیصلے تھے وہ اس حکومت سے کرا لئے گئے ہیں اور وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی محنت سے سیلاب متاثرین کے لئے ساڑھے دس ارب ڈالر کی امداد کے اعلانات بھی ہو چکے اورسعودی عرب نے ایک ارب ڈالر کا تیل ادھار دینے کی حامی بھر لی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے نہ صرف یہ کہ اپنے دو ارب ڈالر کی قرض وصولی کو موخر کر دیا ہے بلکہ مزید ایک ارب ڈالر بھی دے گا اور اسی طرح چین نے بھی اپنے قرضوں کی ادائیگی موخر کر دی ہے تو جس طرح عمران خان نے مختلف دوست ممالک کو ناراض کر دیا تھا تو موجودہ حکمرانوں کو کیا صرف مشکل معاشی فیصلے کرانے کے لئے ہی لایا گیا اور کام ختم ہونے پر ان کی چھٹی کرا دی جائے گی۔ ہم تو بس یہی کہیں گے کہ پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کا حکومت میں آ کر جو حال ہو رہا ہے اس پر غالب کا ایک شعر قارئین کی نذر کر کے اجازت چاہیں گے 
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا