ایغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھنے اور جبر و تشدد پر تشویش ہے، اردوان

ایغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھنے اور جبر و تشدد پر تشویش ہے، اردوان
کیپشن: ایغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھنے اور جبر و تشدد پر تشویش ہے، اردوان
سورس: فائل فوٹو

انقرہ: ترک صدر طیب اردوان نے چینی ہم منصب سے گفتگو کرتے ہوئے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں پر جبر اور تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم چین کی سلامتی اور سرحدوں کا احترام کرتے ہیں لیکن سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی جبری گرفتاری اور حراستی اداروں میں مذہب کی تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالنے کے واقعات پر تحفظات ہیں۔ 

ترک صدر طیب اردوان نے چین کے صدر شی جن پنگ کو ٹیلی فون کیا اور دو طرفہ تعلقات سمیت سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے مسائل پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی۔

اس موقع پر صدر طیب اردوان کا کہنا تھا کہ سنکیاگ کے یغور مسلمانوں کو بھی چین کے دیگر شہریوں کی طرح پُرامن اور آزادانہ ماحول میں رہنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ ہم چین کی سلامتی اور سرحدوں کا احترام کرتے ہیں لیکن سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی جبری گرفتاری اور حراستی اداروں میں مذہب کی تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالنے کے واقعات پر تشویش ہے تاہم اب یہ عمل بند ہونا چاہیئے۔

صدر طیب اردوان نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ترک چین دوستی کے پچاس مکمل ہونے کا جشن شایان شان طریقے سے منایا جانا چاہیئے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق دس لاکھ کے قریب مسلم اقلیتوں جن میں اکثریت ترک زبان بولنے والے ایغور مسلمانوں کی ہے جن کو حراستی مراکز میں رکھا گیا اور مذہب کی تبدیلی کے لیے ذہن سازی کی گئی۔

گزشتہ برس جب چین اور ترکی کے درمیان بڑے تجارتی معاہدے طے پائے تھے تو ترکی میں رہنے والے 40 ہزار ایغور مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تھا اور چینی سفیر کی آمد پر انقرہ میں ایک بڑا مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ چین اقوام متحدہ سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے حراستی مراکز میں ایغور مسلمانوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے دعوؤں کو مسترد کرتی آئی ہے تاہم بعد میں تسلیم کیا کہ دراصل یہ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز ہیں جہاں مختلف ہنر سیکھائے جاتے ہیں۔