تمھیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں

تمھیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں

پاکستان فوج دنیا بھر میں ایک ایسی فوج ہے جس کے افسران مشکل حالات میں دیگر ممالک کی افواج کی طرح اپنے سپاہیوں کے عقب میں پناہ گزیں نہیں ہوتے بلکہ غیرت ایمانی اور جذبہ شہادت سے لیس اپنے سینے تان کر ان کے شانہ بشانہ اور کئی موقعوں پر سپاہیوں سے آگے بڑھ کر دشمن کو نشان عبرت بنانے کے جذبے کے ساتھ شیر کی طرح دھاڑتے اور دشمن کو پچھاڑتے ہوئے نیست و نابود کر کے رکھ دیتے ہیں۔ تاریخ نے یہ مناظر کئی بار دیکھے ہیںاور اقوام عالم پاکستانی عسکری افسران و سپاہیوں کی ان ہی صلاحیتوں کی متعارف ہے ۔ جرات و بہادری کے اسی قبیلہ کا فرد ایک روشن جگمگاتا ستارہ ، معرکہ بڈھ بیر ، کا ہیرو کیپٹن اسفند یار بخاری شہید بھی ہے جو ہماری فوج کے شہداء کے گلدستے کے ایک خوشنماء پھول ہیں۔ اس خوشنماپھول کی شہادت کی خوشبو اج ملک کے بچے بچے کو محسوس ہوتی ہے۔ اس کی دیدہ دلیری کے قصے ملک کے شہروں قصبوں ، گلی کوچوں میں زبان زد عام ہیں۔ راقم الحروف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ، معرکہ بڈھ بیر کے ہیرو ، کیپٹن اسفند یار بخاری شہید، کے محب وطن مجاہد صفت والد ڈاکٹر سید فیاض حسن بخاری سے دیرینہ تعلق تقریبا دو عشروں سے بھی زائد عرصہ پر مشتمل ہے۔ اور اسی ناطے سے کیپٹن اسفند یار بخاری شہید کے بچپن ، لڑکپن ، جوانی ، طالب علمی کے مختلف مراحل پر ان سے ملاقاتوں اور انہیں جاننے ان کے زمانے طالب علمی کی کامیابی و کامرانیوں کی سرگرمیوں کو اجاگر کر نے اور اشاعت پذیر کروانے کے مواقع میسر رہے ۔ اور بعد ازاں شہاد ت پر بندہ نا چیز کو یہ بھی اعزاز حاصل رہا کہ کیپٹن اسفند یار بخاری پر راقم الحروف کا کالم سب سے پہلے درجنوں قومی اخبارات میں اشاعت پذیر ہوا جس میں شہید کے خاندان پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اور شہید کے اسلاف ، اجداد کی شہادتوں کو نمایاں کر کے اجاگر کیا گیا اور یہ سامنے لایا گیا کہ یہ بخاری خاندان کی پہلی شہادت نہیں بلکہ یہ سلسلہ اس خاندان میں نسلوں سے جاری ہے اس کالم سے ملک کے بڑے کالم نگاروں نے بھی استفادہ کیا اور اسے اپنی تحریروں کا حصہ بنایا اور آج تک اسی تناظر میں کالم لکھے جار ہے ہیں۔ جو کہ میرے لیئے اعزا ز سے کم نہیں ۔ چند ماہ قبل جب معمولات زندگی میں مصروف تھا تو کیپٹن اسفند یار بخاری شہید کے والد محترم ڈاکٹر سید فیا ض بخاری صاحب کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی جس میں انہوں نے اپنے دفتر طلب فرمایا حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے کچھ ہی وقت بعد جب بخاری صاحب کے دفتر پہنچا تو انہوں نے نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ پر تپاک انداز میں ، معرکہ بڈھ بیر کا ہیرو ۔کتاب پیش کی ۔ بہترین دیدہ زیب اسفند یار بخاری کی خوبصورت تصویر سے سجے سرورق پر مشتمل کتاب کے مصنف شہید کیپٹن کے کالج کے استاد پروفیسر محمد ظہیر قندیل ہیں۔ تقریبا300 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اسفند یار بخاری شہید کی 27 سالہ زندگی کے تمام ادوار کا تفصیلی جائزہ لیاگیا ہے ۔ سکولز ، کالجز او ر پاکستان آرمی میں اندرون اور بیرون ملک ان کی کارکردگی پر حاصل کردہ انعامات و اعزازات پر بھر پور طریقہ سے روشنی ڈالی گئی ہے اس کتاب کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس کی تقریب رونمائی ملک کے مختلف شہروں میں ہونے کے علاوہ یہ کتاب پاکستان کے مشہور و معروف کتب خانوں کی زینت بھی بن چکی ہے۔ کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے دس ایڈیشن ایک سال کی مختصر مد ت میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ کتاب میں شامل ادیبوں ، صحافیوں اور ماہرین تعلیم کی آرائیں بغور پڑھنے کے قابل ہیں۔ یہ کتاب نوجوان نسل کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور بلاشبہ اس کتاب کی اشاعت پر کتاب کے مصنف پروفیسر محمدظہیر قندیل داد تحسین کے مستحق ہیں۔ حالات حاضرہ و میڈیا سے منسلک لوگ و قائرین بخوبی جانتے ہیں کہ سید اسفند یار بخاری شہید کی ساری زندگی کامیابیوں و کامرانیوں کے تعاقب میں رہی اور انعامات و اعزازات کی بارش ان کا پیچھا کرتی رہی ۔ اور آخر میں تمغہ شہادت اپنے سینے پر سجائے تاریخ میں امر ہو گئے سلام پیش کرتا ہوں شہید کے عزم و ہمت کے بحر بیکراں محب وطن والد ین کو خصوصا شہید کی والدہ کو جنہو ں نے اپنے بچوں کی تربیت اسلامی تعلیمات کے عین مطابق کی ۔ سانحہ بڈھ بیر کے ہیرو کیپٹن اسفند یار بخاری شہید و دیگر شہداء جنہوں نے جرات و بہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ان کے لیے بس انتا ہی کہوں گا۔


لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیئے تم نے
اے راہ حق کے شہیدوں وفا کی تصویرو
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں


ڈاکٹر شجاع اختر اعوان

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)