خواتین کے مسائل ۔۔ حجاب اور بے حجابی کی بحث

خواتین کے مسائل ۔۔ حجاب اور بے حجابی کی بحث

عالمی یوم خواتین (international women day)  سے ایک دن قبل میانوالی سے آنے والی ایک خبر نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ۔میانوالی میں ایک سفاک باپ نے اپنی سات دن کی معصوم بچی جنت کو گولیاں مار کر قتل کر ڈالا۔اخباری اطلاعات کے مطابق ملزم شاہزیب خان کو بیٹے کی شدید خواہش تھی۔ اس کے گھر بیٹی نے جنم لیا تو اسے نہایت مایوسی ہوئی۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد اس نے اپنے گھر کا رخ نہ کیا۔ چند دن بعد وہ غم و غصے کی تصویر بنا گھر لوٹا۔ بیوی سے زبردستی بیٹی کو چھین کر زمین پر پٹخا۔ سات دن کی بچی پر پستول سے چار گولیاں فائر کیں اور گھر سے فرار ہو گیا۔ یہ خبر میڈیا کی زینت بنی تو ایک بھونچال برپا ہو گیا۔ پنجاب پولیس فوری طور پر متحرک ہوئی اور ملزم کو گرفتار کر لیا ۔ فی الحال ملزم شاہزیب پولیس کی حراست میں ہے۔ اس کے گھر پر صف ماتم بچھی ہے۔ سنتے ہیں کہ مقتول بچی جنت کی ماں پر غشی کی کیفیت طاری ہے۔ 
یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔تاہم اس سے کہیں بڑھ کر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معصوم جنت کا قتل اپنی نوعیت کا کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ۔ گزشتہ برس مئی میں بھی میانوالی میں ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا تھا۔بیٹے کے خواہشمند باپ نے فائرنگ کر کے اپنی تین معصوم بیٹیوں کو قتل کر دیا تھا۔ فروری 2021 میں لاہور میں دو بیٹیوں کی ماں کو سسرالی رشتہ داروں نے جلا کر مار ڈلا تھا۔تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ سسرال والے بہو سے بیٹے کی پیدائش کا تقاضا کیا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں آئے روز ایسے واقعات  ہوتے رہتے ہیں۔ قتل و غارت گری کے جو قصے رپورٹ ہو تے ہیں، وہ میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچ جاتے ہیں۔ سینکڑوں واقعات ایسے ہیں جو وقوع پذیر تو ہوتے ہیں، مگر رپورٹ نہیں ہوتے۔ سو ایسے واقعات کسی گنتی شمار میں نہیں آتے۔
یہ صنفی امتیاز صرف پاکستانی سماج میں موجود نہیں۔ کچھ دوسرے ممالک کو بھی یہی مشکل درپیش ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت کی مثال لے لیں۔ بھارت میں بھی ایسا طبقہ موجود ہے جو لڑکیوں کو بوجھ اور ان کی پیدائش کو باعث شرمندگی سمجھتا ہے۔ دو ماہ پہلے کی خبر ہے کہ بھارتی ریاست تامل ناڈو میں سنگدل ماں باپ نے پیدائش کے چند روز بعد ہی اپنی معصوم بچی کو جان سے مار ڈالا۔ بھارتی میڈیا میں ایسے قصے اکثر زیر بحث رہتے ہیں ۔ کبھی بچیوں کو بالکنی سے نیچے پھینک دینے کی خبریں آتی ہیں۔کبھی انہیں گلا گھونٹ کر مار دیا جاتا ہے۔کبھی ان کے منہ میں ریت بھر کر ان کی جان لے لی جاتی ہے۔ کبھی دودھ میں نشہ آور ادویات ڈال کر ان سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔بھارتی ٹی۔وی چینل این۔ڈی۔ٹی۔وی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے علاقے راجستھان میں روزانہ بیسیوں نومولود لڑکیوں کو جان سے مار دیا جاتا ہے۔ بھارت میں بہت سے گاؤں ایسے ہیں جہاں یہ طرز عمل باقاعدہ رواج کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ حاملہ خواتین الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے بچے کی جنس معلوم کرتی ہیں۔ بیٹی کی متوقع پیدائش کی اطلاع پر حمل ضائع کروا دیا جاتا ہے۔ پاپولیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ بھارت میں 2000 سے 2014 تک جنس کی بنیاد پر ایک کروڑ ستائیس لاکھ حمل ساقط کئے گئے۔ یعنی رحم مادر میںایک کروڑ ستائیس لاکھ لڑکیاں قتل کی گئیں۔ 
پاکستان میں ارباب اختیار کو سیاسی کھیل تماشوں سے فرصت نہیں ملتی۔ لہٰذا یہاں اس قسم کی تحقیق کا رجحان موجود نہیں۔اگر باقاعدہ تحقیق کی جائے تو ہمیں بھی اعداد و شمار کیساتھ معلوم ہو سکے گا کہ ہمارے ہاں جنس کی بنیاد پرکتنے حمل ساقط کروائے جاتے ہیں۔ یا لڑکی پیدا کرنے کے جرم میں کتنی مائیں قتل ہوتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔دراصل بھارت کیساتھ ہمارا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کے فضل سے ہم ایک مسلمان ملک میں رہتے ہیں۔ ایک ایسے نبی ؐکے پیروکار ہیں جو بیٹیوں سے حد درجہ محبت کیا کرتے تھے۔ ان کی نہایت تکریم کیا کرتے تھے۔ ہمارے پیارے نبیؐ کا یہ اسوہ حسنہ تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ نبی پاکؐ اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے اسقدر محبت اور احترام سے پیش آتے کہ ان کی آمد پر اٹھ کر کھڑے ہو جایا کرتے۔ ان کے بیٹھنے کیلئے اپنی چادر بچھا دیا کرتے تھے۔ بچیوں کی پیدائش پر سوگ منانا، انہیں بوجھ یا شرمندگی سمجھ کر قتل کر دینا، انہیں کم تر اور حقیر سمجھنا زمانہ جاہلیت کی باتیں ہیں۔ عرب میں یہ جاہلانہ رواج عام تھا۔ نومولود لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ نبیؐ نے اس رسم کی حوصلہ شکنی کی۔اسلام میں بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیا جاتا ہے۔ 
ایک ٹی وی پروگرام میں ایسے نومولود بچوں کا تذکرہ ہو رہا تھا جو کوڑے کباڑ کے ڈھیر پر پھینک دئیے جاتے ہیں۔ تجزیہ کار نے بتایا کہ ایسے بچوں کا کوئی مستند ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔البتہ 2017 کی ایک تحقیق کا ذکر ہوا۔ پتہ یہ چلا کہ 2017 میں ایدھی فاؤنڈیشن نے 350 نومولود بچے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھائے۔ ان میں 95 فیصد بچیاں تھیں۔ اسی مقصد کی خاطر مختلف مقامات پر لگے پنگھوڑوں میں سے 14 بچے اپنی تحویل میں لئے۔ 14 میں سے 12 بچیاں تھیں۔ ان تمام بچیوں میں کچھ کا شاید مذہبی یا سماجی جواز نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ والدین انہیں بدنامی کے ڈر سے کوڑے یا پنگھوڑے میں پھینک گئے ہوں۔ لیکن ان میں یقینا ایک بڑی تعداد جائز بچیوں کی بھی ہو گی۔ جنہیں صرف لڑکی ہونے کے جرم میں یہاں پھینک دیا جاتا ہے۔ 
 اگرچہ حقوق نسواں کے ضمن میں پاکستان میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن ابھی تک ہمارے ہاں کاروکاری جیسی رسم موجود ہے۔ آج بھی غیرت کے نام پر عورتیں قتل ہوتی ہیں۔ جہیز کم لانے یا نہ لانے کے جرم میں ان کی جان لے لی جاتی ہے۔ کبھی بیٹا پیدا نہ کرنے کے جواز پر انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ بہت سے پسماندہ علاقوں میں بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ انہیں لڑکوں کے مقابلے میں کم خوراک میسر ہوتی ہے۔ دیہات کیساتھ ساتھ شہروں میں بھی خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنے کے قصے عام ہیں ۔ کبھی خواتین کو پسند کی شادی کی اجازت نہیں ملتی، کبھی نوکری کرنے کی ۔ حالت( بلکہ جہالت) یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیکل کی ڈگریاں حاصل کرنے والی ستر فیصد سے زائد خواتین شادی کے بعدپریکٹس نہیں کر پاتیں۔ وجہ یہ کہ انہیں اپنے شوہر یا سسرال کا تعاون میسر نہیں ہوتا۔ یہ ہیں خواتین کے وہ مسائل جن پر ہمیں توجہ دینی چاہیے۔
 کچھ برسوں سے ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کے ضمن میں حساسیت کافی بڑھ گئی ہے۔ یہ یقینا اچھی بات ہے۔ چند دن پہلے ہم نے عالمی یوم خواتین منایا بھی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے اس دن رنگ برنگے مارچ اور واک کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ عورتوں کے دن کو بھی ہم عورتوں نے دو دھڑوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف باحجاب عورتیں یہ دن مناتی ہیں۔ دوسری طرف دوپٹہ کندھے پر لٹکائے یا بغیر دوپٹے کے خواتین نظر آتی ہیں۔خواہ کسی کو یہ بات گراں گزرے۔ مگر سچ یہ ہے کہ جب سے عورت مارچ کاشوشا شروع ہوا ہے۔ آٹھ مارچ کا دن حجاب اور بے حجابی کے مابین ایک مقابلہ بن کے رہ گیا ہے۔ روایت پرست طبقہ ہو یا نام نہاد لبرل طبقہ، دونوں کی تان فقط دوپٹے اور حجاب پرٹوٹتی ہے۔خواتین سے جڑے دیگر سنجیدہ مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ پردے، دوپٹے اور حجاب سے کہیں اہم معاملات اور مسائل پاکستانی خواتین کو درپیش ہیں۔ لازم ہے ان مسائل کو زیر بحث لایا جائے۔ خواتین کی تعلیم، صحت، معاشی خود مختاری اور دیگر مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے۔ روایت پسند اور لبرل طبقے کی خواتین کو اس امر کی تفہیم کرنی چاہیے کہ دوپٹہ اوڑھنا یا اس کے بغیر رہنا، حجاب کرنا یا نہ کرنا، ہر لڑکی اور خاتون کا ذاتی فیصلہ ہے۔ ہر کسی کو اپنے مذہبی رجحان،  خاندانی اقدار اور اپنی ذاتی پسند ناپسند پر یہ فیصلہ کرنے دیجئے۔ آپ کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ پاکستانی خواتین کو درپیش حقیقی مسائل پر توجہ دیں اور ان کے حل کے لئے اپنا زور بازو صرف کریں۔

مصنف کے بارے میں