کتاب کلچر…

کتاب کلچر…

گذشتہ دنوں سابق امریکی صدرباراک اوبامہ کی سوشل میڈیا پر وائرل ایک تصویر کو ہم نے رشک کی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ کتابیں بغل میں دبائے ایک کتب خانے میں بل ادا کرنے کے لئے موجود تھے، جو اس بات کی شہادت ہے کہ موصوف نے کتب بینی کے شوق کو اس عہد میں بھی پال رکھا ہے، صدارت سے رخصت ہونے کے بعد وہ امریکی سیاست سے کنارہ کش ہو کر ذوق مطالعہ میں محو ہو گئے ہیں، انکی بلا سے کہ کون امریکہ میں صدارتی منصب پر برا جمان ہے، گورننس کیسی ہے، اس وقت کون آرمی چیف ہے، آنے والا کون ہو گا، کس نے قومی دولت کو لوٹا ہے، کون پروپیگنڈا کر رہا ہے، انھوں نے بخوبی اپنی صدارت کی مدت مکمل کی اور اپنا دامن جھاڑ کر عام آدمی کی طرح زندگی کی دوڑ میں مصروف ہوگئے،انکی یہ عادت دیکھ کر ہمیں فرانسیسی لیڈر نیپولین بونا پاٹ یاد آگئے، جو کتب بینی کے متعلق رائے رکھتے ہیں کہ جو لوگ مطالعہ کتب کرتے ہیں وہ ذہنی طور پر اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ دنیا کی باگ ڈور سنبھال سکیں۔اوبامہ اس کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں۔
 حسرت ہے ہم بھی کبھی اپنے سابق صدر کو اس طرح عوامی انداز میں کسی کتب خانے سے کتابوں سمیت برآمد ہوتا دیکھیں ہم نے انھیں جب بھی دیکھا ہے نیب عدالت سے نکلتے دیکھا ہے، یہ اسی کا فیض ہے کہ سماج میں کتاب کلچر پروان نہیں چڑھ سکا ہے، چند معدودے ارباب اختیار کی کتابوں کی باز گشت سنائی دی مگر بعد ازاں معلوم ہوا کرائے کے مصنفین سے کتاب لکھوا کر مصنف بنے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آسکے، ان میں کچھ کو استثنا حاصل رہا جو واقعی مصنف تھے انکی کتب آج بھی زیر مطالعہ ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مطالعہ کتب انسانی ذہن کی گرہیں کھولتا ہے، شعور کو بیدار کرتا ہے، اس کی وساطت سے معاشرے کار آمد افراد تیار کئے جاتے ہیں، کتاب بینی اقوام کا عروج زوال متعین کرتی ہے، برطانوی تاریخ دان تھومس میکائے کہتے ہیں کہ مطالعہ کتب سے انسان مرحومین مصنفین سے ملاقات کرتا ہے، ان کے خیالات جاننے کا موقع ملتا ہے، وہ کہتا ہے کہ آپ مجھے قارئین کا خاندان دکھائیں میں آپ کو ایسے لوگ دکھائوں گا جو دنیا تبدیل کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بھی سنت یہی ہے کہ انسان کی 
اصلاح کے لئے کتاب ہی کو لازم جانا، نبی اور رسول پر آسمانی کتب اور صحیفے نازل کرنے کا مقصد انسان کی تربیت بذریعہ کتب کرنا تھا، وہ امت جو اس وقت اپنا درخشاں ماضی بھول چکی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اسے عروج عطا کیا تو یہ ہر شعبہ ہائے زندگی کی تحقیق میں مصروف عمل تھی، جب عیش پسندی کا راستہ اپنایا اور کتاب کو داغ مفارقت دیا تب سے اس کے زوال کا آغاز ہوا ہے، بنیؐ آخر زماں پر وحی کا پہلا حرف ہی پڑھ اپنے رب کے نام سے شروع ہوتا ہے، ہم نے اسے سمجھنے کے بجائے کتاب کو دم اور تعویز کے لئے مختص کر لیا ہے، اس سے رو گردانی کرنے پر علامہ اقبال بڑے رنجیدہ نظر آتے ہیں، اور وہ نوجوانان قوم سے شکوہ کناں ہیں اور فرماتے ہیں۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی۔جو دیکھیں اِن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا۔
ڈاکٹر اقبال کہتے ہیںعلوم و فنون کی بہترین کتب ہمارے اسلاف نے رقم کیں وہ مغرب کے لئے استفادہ کا باعث بن رہی ہیں اور ہم ان سے لا تعلق ہو رہے ہیں، امریکی مصنف بریڈ بیوری کا نظریہ ہے کہ کسی قوم کی ثقافت کو ختم کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ اسکی کتابوں کو جلا دیں بلکہ اسکو کتب بینی سے دور کر دیں، وہ قوم از خود اپنی ثقافت سے دور ہوتی چلی جائے گی، امت مسلمہ کی حالت زار اسکی شہادت دے رہی ہے۔
ایک اور امریکی ناول نگار جارج لوٹن مطالعہ کتب کے بارے میں لکھتے ہیں جو شخص کتابیں پڑھتا ہے وہ ہزاروں زندگیاں جیتا ہے جبکہ نہ پڑھنے والا صرف ایک زندگی جیتا ہے، سوشل میڈیا میں غرق نسل نو کتابی دنیا سے دور محض اپنی زندگی ہی جی رہی ہے۔
بین الاقوامی ابلاغی ادارہ نے نیشنل لائبریری اسلام آباد کے متعلق لکھا ہے،کہ جدید ترین ڈیڑھ لاکھ کتب ہیں مگر قارئین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، نوجوانان قوم میں کتب پڑھنے کا شوق عدم توجہی کا شکار ہے، ایک ایسا سماج جو پہلے ہی نیم خواندہ ہو پھر کتب بینی کا ذوق بھی مفقود ہو تو اس میں عدم برداشت کا کلچر کیسے پروان نہ چڑھے، جب سیاسی قائدین میں یہ وصف سرے سے موجود ہی نہ ہو تو وہ اسکی تلقین اپنے پیرو کاروں کو کیسے کر سکتے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ نوّے کی دہائی میں ملک میں سترہ سو سے زائد کتب خانے تھے اب ان میں اضافہ ہوا ہے مگر کتا ب بینی کے عدم کلچر سے انکی اہمیت بتدریج کم ہوتی جارہی ہے، حتیٰ کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں کتب خانے کسی آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتے ہیں، معروف لا ئبریری میں صرف وہ نوجوانان آتے ہیں جنہیں کسی امتحان میں شریک ہونا ہوتا ہے،کتب بینی تو رہی ایک طرف عام طلباء میں اخبار بینی کا شوق بھی نہیں ملتا۔
گذشتہ دنوں ہماری برقی ملاقات ایک ناشر سے ہوئی جو سرکار کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے نظر آئے، زندہ دلان لاہور کے معروف پبلشر قلم فائونڈیشن کے چیف ایگزیکٹو علامہ عبدالستار عاصم کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات کتاب بینی کی راہ میں اصل رکاوٹ ہی نہیں بلکہ دشمنی کے مترادف ہیں،وہ شہر لاہور ایکسپو سنٹر میں منعقدہ کتابوں کی نمائش پر محو گفتگو تھے، ضروریات زندگی کے علاوہ اس گرانی میں کتب بھی مہنگی ہیں، ان حالات میں پبلشرز کے لئے کوئی ایسا پیکیج ضرور ہونا چاہئے کہ جس سے مصنف کو بھی فائدہ ہو اور پبلشرز کی روزی روٹی کا اہتمام ہو، تاکہ نئے قاری کو کتب بینی کی طرف لایا جائے جو کتاب خریدنے سے خوف زدہ ہے، کتاب میلہ میں سٹالوں کی بھاری بھر فیس ہی اچھی کتب قاری تک پہنچانے کی راہ میں دیوار بن جاتی ہے، اس سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ سرکار نئے قاری بنانے کے بجائے اپنے ٹیکس جمع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
اس میں وہ سرکاری ٹیکسز شامل نہیں ہیں جو کاغذ، گتہ،سیاہی، پرنٹنگ مشینری پر عائد کے جاتے ہیں، ان کی بدولت جب کتاب مارکیٹ میں آتی ہے تو اسکی کاسٹ بہت بڑھ جاتی ہے، انکی آرزو ہے کہ سرکار کتاب کلچر کو فروغ دینے کے لئے اس صنعت کو ٹیکس فری قرار دے، نیزپورے ملک میں کتب کے فری سٹال لگانے کی اجازت دے تاکہ کتاب زیادہ سے ہاتھوں تک پہنچائی جاسکے۔اس فائونڈیشن کو ملک کے نامور مصنفین کی کتب شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہے، اس لئے اشاعتی ادارہ کے سربراہ کی حیثیت سے انکی گہری نظر مذکورہ مسائل پر ہے، کم وبیش انھیں مشکلات کا تذکرہ دوسرے پبلشرز بھی کرتے ہیں، جس کا سامنا کتابوں کے مصنفین کو بھی کرنا پڑتا ہے، ہماراکتاب کلچر مغرب سے بہت مختلف ہے، وہاں مصنف ایک کتاب رقم کر کے اس کی آمدنی سے گھر چلاتا ہے،جبکہ ہمارے لکھاری کو اپنی کتاب بیچنے کے لالے پڑے ہوتے ہیں،  اگر سرکار چاہتی ہے کہ ارض پاک میں مستقل امن رہے، نسل نو کو متشددانہ جذبات سے دور رکھا جائے تو اس کے ہاتھ میں کتاب دینا لاز می ہے، جس کا راستہ اس کی صنعت کو ٹیکس فری دینے کی طرف جاتا ہے۔

مصنف کے بارے میں