اقتدار کے کھیل میں عوام دکھائی نہیں دیتے

اقتدار کے کھیل میں عوام دکھائی نہیں دیتے

کہا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے حکم پر جو تھوڑی بہت رعائتیں دی گئی تھیں ختم ہو جائیں گی جس کی وجہ سے مہنگائی کے بگولے ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں وہ صرف اپنے حوالے سے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں جبکہ عوام کو یہ امید بندھ چلی تھی کہ یہ آتے ہی ایسی اصلاحات کریں گے جو انہیں ایک بڑا ریلیف دیں گی مگر اب وہ مایوس ہو چکے ہیں کیونکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ جلد ہی پٹرول کی قیمت بہت زیادہ بڑھا دی جائے گی اسی طرح بجلی گیس کے دام بھی بڑھیں گے لہٰذا لوگوں کی مزید چیخیں نکلیں گی۔ وہ تو پچھلی حکومت سے اسی لیے ہی خفا تھے اور اسے بددعائیں دے رہے تھے کہ اس نے ان کی جمع پونجی تک ہتھیا لی ہے اب جب مہنگائی بڑھتی ہے (بڑھ بھی چکی ہے) تو جو حال ان کا ہو گا اس کا اندازہ چشم تصور سے کیا جا سکتا ہے لہٰذا موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور سے کوئی راہ نکالے جن سے مہنگائی کے طوفان کو روکا جا سکے یا پھر نئے عام انتخابات کا اعلان کر دے اس سے وہ ایک حد تک عوامی غم و غصے سے محفوظ رہ سکتی ہے کیونکہ عوام  یہ سوچ کر کہ نئی حکومت ضرور کچھ بہتر کرے گی صبر کر لیں گے مگر نظر آرہا ہے کہ حکومت اس وقت تک نئے عام انتخابات نہیں کرانا چاہتی جب تک وہ انتخابی اصلاحات نہیں کر لیتی۔ 
ادھر حزب اختلاف کی جماعت پی ٹی آئی فوری انتخابات کے حق میں ہے شاید وہ ایسا اس لیے چاہتی ہے کہ اسے یہ یقین ہے کہ چونکہ عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے لہٰذا وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں آ بھی جاتی ہے تو عوام کے لیے کون سے منصوبے رکھتی ہے جو انہیں خوشحال بنا سکتے ہیں۔ ہمیں نہیں دکھائی دیتا کہ وہ کچھ کر پائے گی کیونکہ ہم پہلے بھی یہ عرض کر چکے ہیں کہ جب تک آئی ایم ایف سے جان نہیں چھوٹتی اور مغرب کو خدا حافظ نہیں کہہ دیا جاتا یہاں خوشحالی نہیں آئے گی پھر کرپشن کلچر ختم نہیں ہو جاتا تو زندگی آسان اور سہل نہیں ہو سکتی لہٰذا حکومت کوئی بھی آئے وہ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتی کیونکہ آئی ایم ایف کو عوام کے مسائل سے کوئی غرض نہیں وہ صرف اپنے منافع (سود ) سے دلچسپی رکھتا ہے پھر اس کا سیاسی پروگرام بھی ہوتا ہے جس کے تحت وہ ہم ایسے ترقی پذیر ممالک کو گھیرے میں لے کر ان سے اپنی شرائط منواتا ہے لہٰذا حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ وہ جتنا عرصہ مرضی اقتدار میں رہیں گمبھیرتا کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس طرح وہ عوام کے دل بھی نہیں جیت سکتے اور جب وہ (عوام) ہر طرف سے مایوس ہو جائیں گے تو وہ از خود باہر نکلیں گے نکل رہے ہیں تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جب وہ سڑکوں پر آتے ہیں تو انہیں کوئی بھی طاقتور نہیں روک سکتا مگر حیرت ہے کہ موجودہ سیاسی منظر جو پی ٹی آئی نے ابھارا ہے کو دیکھ کر بھی اہل اقتدار و اختیار نہیں سمجھ رہے شاید اس لیے کہ ان تمام بڑوں کی رہائشیں اور جائیدادیں بیرون ممالک ہیں یہاں کوئی انقلاب برپا ہوتا ہے تو یہ اڑانیں بھر جائیں گے رہیں گے غریب اور محکوم عوام جنہیں انہوں نے پچھتر برس سے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 
بہرحال اچھے دنوں کی امید رکھی جا سکتی ہے کیونکہ کوئی نہ کوئی ایسا حکمران بھی آسکتا ہے جو اس بگاڑ کو ٹھیک کر سکتا ہو گا فی الحال تو معاشی بربادی ہی نظر آرہی ہے سماجی تباہی بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سوچ رہا ہے اسے نقصان پہنچانے کی ترکیبیں لڑا رہا ہے ایک چھینا جھپٹی ہے جو ہر طرف دیکھی جا سکتی ہے کسی کو کسی پر اعتبار نہیں رہا بس چکرا دینے والے چکر دیئے جا رہے ہیں زندگی ایک کانٹا سی بن گئی ہے صبح سکون ہے نہ رات کو چین مگر ہمارے حکمران ہیں کہ اپنی فلاح و بہبود کے لیے ہی سرگرداں ہیں اقتدار اقتدار کی گردان کیے جا رہے ہیں۔ 
ان تمام سیاستدانوں سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ تھوڑا سا بھی عوام کے لیے اپنے دل میں درد رکھتے ہیں تو آپس میں مل بیٹھیں کوئی راستہ تلاش کریں جو مشکلات سے نجات دلاتا ہو یہ جو نفرتوں کا بازار سجا رکھا ہے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا جا رہا ہے یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے پچھتر برس کے بعد بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ڈکٹیشن لے لے کر اپنا حلیہ بگاڑ لیا ہے کب تک ایسا ہو گا۔ بنیادی صنعتوں سے محروم ہونے کی وجہ سے بنیادی ترقی نہیں ہو سکی لہٰذا ہمیں وہ آسائشیں بھی نہیں حاصل ہو سکیں جو آج ترقی یافتہ معاشروں کو میسر ہیں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے یہاں تو اقتدار کے دیوانے ہیں جو مارے مارے پھرتے ہیں اور جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو قومی خزانے پر جھپٹ پڑتے ہیں اور وہ خالی ہونے کے قریب پہنچتا ہے تو عوام پر ٹیکس لگانے کا آغاز ہو جاتا ہے تا کہ اسے بھرا جا سکے یوں اشرافیہ اس ملک کو مسائل کی دلدل میں دھکیل رہی ہے اور اب حالت انتہائی خراب ہے جینے کی راہ پر خطر ہو چکی ہے جو سوائے انقلاب کے بے خطر نہیں ہو سکتی مگر اشرافیہ کے ذہنوں میں بے جا خواہشوں کے انبار لگے ہوئے ہیں جو انہیں ہر دم مضطرب رکھتے ہیں پھر وہ حصول اختیار کے لیے چل پڑتے ہیں آج تک یہی کچھ ہو رہا ہے اس رجحان سے عوام کی حالت نہیں بدل سکی وہ سسک سسک کر جی رہے ہیں انہیں انصاف نہیں مل رہا اگر ملتا بھی ہے تو بہت مہنگا اس نظام نے انہیں زندہ درگور کر دیا ہے۔ تھانے اور پٹوارخانے ان کی چمڑی ادھیڑ رہے ہیں۔ سرکاری ادارے انہیں حقیر جان کر ان کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ 
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہاں امیروں کی دنیا الگ ہے اور غریبوں کی دنیا الگ۔ امیروں پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور غریب بے چارے پلک جھپکتے میں معمولی سے معمولی جرم میں پکڑے جاتے ہیں انہیں سزائیں بھی ملتی ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر عوام کسی حکمران سے وفا کی امید کیسے کر سکتے ہیں لہٰذا انہیں خود آگے بڑھنا ہو گا۔ پچھتر برس تھوڑے نہیں ہوتے اگر اس ملک کے اہل اختیار نے عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنا ہوتا تو وہ کب کے کر چکے ہوتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تا کہ ان کے اختیارات عوام کو منتقل نہ ہو جائیں۔ نتیجتاً اب ہاہا کار مچ گئی ہے اور وہ چین کی بانسری بجا رہے ہیں ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں محض کارروائیاں ہی ہیں ہوتا کچھ نہیں ایسا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ ایک دھوکا ہے جو مسلسل دیا جا رہا ہے۔ چہرے بدل بدل کر ہر بار خوشحال ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے مگر حالت پہلے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہو جاتی ہے اب جب پٹرول دو سو روپے ہو گا تو اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کوچھو رہی ہوں گی۔ 
بہر کیف حکمران طبقات اگر یہ سوچ رہے ہیں اور سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ مختلف ہتھکنڈوں اور حربوں سے عوامی ردعمل کو روک لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے کیونکہ مزاحمت جان کے لالے پڑنے پر ضرور ہوتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ لوگ جب نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں تو وہ ہر رکاوٹ کو عبور کرجاتے ہیں موجودہ سیاسی منظر میں انہیں صاف دیکھا جا سکتا ہے لہٰذا اقتدار کے کھیل کو ایک طرف کرتے ہوئے مل بیٹھ کر عوام کی بہتری کے لیے سوچاجائے۔ باہمی عداوتیں اور نفرتیں ختم کی جائیں۔ جو ماضی میں ہو گیا سو ہو گیا سانپ گزر گیا اب لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ مگر جاوید خیالوی کے مطابق ہوس زر و اقتدار انہیں متحد نہیں ہونے دے گی عوام کو اپنے روشن مستقبل کے لیے خود جدوجہد کرنا ہو گی وگرنہ یہ سیاسی بہروپیے اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں گے۔

مصنف کے بارے میں