معاشی اور آبی بحران

معاشی اور آبی بحران

 سیاسی کشیدگی میں اِداروں کو بھی ملوث کیا جارہا ہے حالانکہ ملک کا بڑا مسئلہ سیاسی نہیں معاشی اور آبی بحران ہیں اِن بحرانوں نے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے لیکن سیاسی قیادت فیصلوں میں گومگو کا شکار ہے جو ملک میں بے یقینی اوربے چینی بڑھانے کا باعث ہے ایک طرف معاشی اور آبی بحرانوں کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں تو عمران خان نے فوری انتخابات کے لیے حکومت پر دبائو بڑھا دیا ہے یہ دبائو ہی پیٹرول کی قیمتوں کو استحکام دینے کی وجہ ہے کیونکہ پیٹرول کی قیمت بڑھانے کے عوض کوئی بھی سیاسی قیمت چکانا نہیں چاہتا اسی لیے شہباز شریف مسائل کے متعلق عوامی مزاج کے خلاف نیا فیصلہ لینے میں محتاط ہیں اسحاق ڈار اور خواجہ آصف جیسے لوگوں کی طرف سے اتفاق کے باوجود آصف زرداری اصلاحات سے قبل انتخابی میدان میں اُترنے سے گریزاں ہیں جس سے معاشی حالت خراب ہونے کے ساتھ سیاسی مسائل اور کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اب وزیرِ اعظم کو ایک طرف عمران خان کے دبائو کا سامنا ہے معیشت دگرگوں الگ پریشانی ہے حکومت نے رواں ماہ مئی میں پانچ ارب ڈالر اوراگلے ماہ جون میں پھرپانچ ارب ڈالرقرض کی ادائیگی کرنا ہے لیکن زرِ مبادلہ کے زخائر دس ارب ڈالر رہ گئے ہیں سیاسی کے ساتھ معاشی بے یقینی کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرگراوٹ کا شکارہے  ایک طرف آئی ایم ایف قرض پروگرام معطل ہے کیونکہ پیٹرول کے نرخ بڑھانے اور ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس کی وصولی جیسا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا جارہا تو ساتھ ہی چین نے بھی مزید مالی مدد سے نہ صرف انکار کر دیا ہے بلکہ سابقہ قرض واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاملات سدھارنے کی ہدایت دی ہے سکھر اور ملتان موٹر وے تعمیر کرنے والی کمپنی نے کرپشن الزامات لگانے پرناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کوا لگ ادائیگی کانوٹس دے رکھاہے جبکہ چینی آئی پی پیز نے فوری طور پر تین سو ارب کی عدم ادائیگی کی صورت میںبجلی کی پیداوار بند کرنے کا انتباہ دیا ہے اِن حالات میں اگر تصور کرلیتے ہیں کہ حکومت بھاگ دوڑکے ذریعے کہیں سے دس یا پندرہ ارب ڈالر نیا قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تو بھی چھ سات ماہ سے زیادہ ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ حالیہ ادائیگی کے بعد درآمدات کے لیے رقوم پھر چند ماہ میں ہی ناکافی رہ جائیں گی اِن حالات میں غیر ضروری درآمدات پر فوری پابندی کا فیصلہ ضروری ہے علاوہ ازیںصنعتی اور زرعی پیدوار بڑھانے پر توجہ دیکر زرِ مبادلہ پر دبائو کم کیا جا سکتا ہے فیصلوں میں جتنی تاخیر ہوگی اتناہی مسائل میں اضافہ اورپھر اُن کا حل مشکل ہوتا جائے گاایسا ہونے سے صرف بے یقینی ،بے چینی اورافراتفری میں ہی اضافہ ہوگا۔
معاشی کی طرح آبی بحران بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدیدتر ہوتا جارہا ہے روہی کے ریگزاروں کی بات کریں یا اندرونِ سندھ کی، یا بلوچستان پر نگاہ دوڑائیںحالات بہت  خراب ہیں  اِس بارموسمِ گرما چولستان میں موت کا پیغام بن کر آیا ہے بھیڑیں ،بکریاں اور دیگر جانور جابجا پیاسے تڑپتے جانیں دے رہے ہیں غریب لوگ جانوروں کی اموات سے  مزیدغربت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں لیکن حکومت کو اِس کی شاید کوئی پروا ہی نہیں اسی لیے فوری طورپر بہتری کے کوئی آثارنظر 
نہیں آتے ستلج،راوی ،سندھ تو خشک ریت بن چکے چناب اور جہلم بھی جلد ہی ایسا روپ دھارنے والے ہیں سیاسی قیادت آبی جارحیت کا احساس کرنے کے بجائے بے نیاز دکھائی دیتی ہے معاشی تباہی کے ساتھ آبی بحران کاجلد حل نہ نکا لا گیاتو ملک جو پہلے ہی خوراک میں خود کفیل نہیں قحط سالی کا شکار ہو سکتا ہے سیاسی قیادت کو چاہیے کہ ذاتی مفادپر قومی مفاد کو مقد م سمجھیں اور ملک کو سری لنکا جیسے حالات کی طرف دھکیلنے سے گریزکریں وگرنہ دنیا کا پہلا جوہری اسلامی ملک انتشار و افراتفری کا شکار ہو سکتاہے مرکز سمیت پنجاب کی صوبائی حکومت نے پانی کی کمی کا نوٹس لیتے ہوئے اخبارات میںہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی خبر شائع کرانے کے سوا عملی طورپر کچھ نہیں کیا اگر کیا ہوتا تو بھارت سے آبی جارحیت پر دوٹوک بات کی جاتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے کابینہ لندن جا کر میٹنگیں کر رہی ہے ایسی مصروفیات کسی صورت حکومت کی نیک نامی کا باعث نہیں بن سکتیں ۔
پاکستان آنے والے زیادہ تر دریا ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں جن کا منبع بھارتی علاقہ ہے اسی لیے قائدِ اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا لیکن اُن کے بعد آنے والی قیادت نے غیر ذمہ داری دکھائی جس کی بنا پر بھارت نے یو این او میں کیے وعدوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے نہ صرف کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی بلکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے 1960 کے فوجی دور میں صدر ایوب خان اور ہندوستانی وزیرِ اعظم نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے تاکہ دونوں ممالک میں پانی کی مساوی تقسیم ہو جس کے تحت جہلم ،سندھ اور چناب تینوں مغربی دریا پاکستان جبکہ ستلج ،راوی اور بیاس کا پانی بھارتی تصرف میں دے دیا گیااِس معاہدے کی شرائط تسلیم کرانے میں عالمی بینک نے کلیدی کردار ادا کیااور کسی فریق کی طرف سے شرائط کی عدم پاسداری کی صورت میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی گارنٹی دی مگر پاکستان نے جب بھی بھارتی ناانصافی کے لیے گارنٹر سے رجوع کیا تو عالمی بینک نے عدم دلچسپی ظاہر کی اسی بنا پر بھارت آبی جارحیت کا مرتکب ہورہا اور پاکستان شدید آبی قلت کا شکار دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں شامل ہوگیا ہے اگر عالمی بینک غیر جانبداری اور انصاف سے کام لیتا تو آج اتنی حق تلفی نہ ہو رہی ہوتی۔
بھارت کو آبی جارحیت کا موقع خود سیاسی قیادت نے نااہلی ،غیر ذمہ داری اور تساہل سے دیا ہے جو آبی ذخائر کی تعمیر میں مسلسل کوتاہی کی مرتکب ہوئی اگر آبی ذخائر کی تعمیر میں کوتاہی نہ کی جاتی تو سندھ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب آج پانی کے لیے ایسے نہ تڑپ رہے ہوتے پاکستان نے جب بھی کسی عالمی اِدارے سے رجوع کیا تو بھارت کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ پاکستان تو پانی استعمال کرنے کی بجائے سمندر میں پھینک دیتا ہے اِس لیے ضائع جانے والا پانی اگر ہم استعمال کرلیتے ہیں تو کیا مضائقہ ہے حالانکہ سندھ طاس معاہدے کی ایک شرط یہ ہے کہ کوئی بھی فریق تقسیم شدہ دریائوں پر یکطرفہ منصوبہ نہیں بنا سکتا بلکہ دوسرے فریق کو اعتماد میں لے کرہی منصوبہ شروع کرسکتا ہے لیکن کشمیر پر کیے وعدوں کی طرح بھارت سندھ طاس معاہدے کی پاسداری سے بھی انکاری ہے اور بات چیت کے ذریعے وقت حاصل کرتا ہے اسی بناپر آج پاکستان کے کئی علاقوں میں قحط کی نوبت آگئی ہے سندھ کے زرعی علاقوں میں کاشت کاری کے لیے بھی پانی نہیں مل رہا ۔
کچھ منصوبوں پر بھارت نے کا م شروع کیا تو پاکستان نے اعتراض کرنے میں ہی اتنی تاخیر کر دی کہ عالمی بینک نے مداخلت غیر ضروری سمجھ کر شکایت نظر انداز کر دی مگر پاکستانی قیادت کواب الارمنگ صورتحال کاادراک کرنا چاہیے وگرنہ میدانِ جنگ میں شکست نہ دینے والا بھارت آبی جارحیت سے پاکستانیوں کو بھوکا مارنے میں کامیاب ہو جائے گا نیویارک میں منعقد ہونے والی غذائی کانفرنس میں بلاول بھٹو کو لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک انداز میں بھارتی چیرہ دستیوں پر با ت کرنی چاہیے کیونکہ ملک کے کئی علاقے پانی کی قلت کا شکار ہیں جس سے زرعی پیداوار متاثر ہورہی ہے علاوہ ازیں پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر کالا باغ ڈیم پر کام شروع کر دینا چاہیے خوش قسمتی سے یہ قدرتی طور پر بنا بنایا ڈیم ہے جس کے لیے ایک سے زائد عالمی اِدارے فنڈز دینے پر آمادہ ہیں اگر مزید عرصہ سمندری پانی کے اوپر آنے ، بدین ،سجاول اور ٹھٹھہ کی زمینوں کے متاثر ہونے جیسی باتیں ہی ہوتی رہیں تو حالات مزید خراب ہو تے جائیں گے آج تو کالاباغ ڈیم جیسا قابلِ عمل منصوبہ ہے کل کو کہیں یہ موقع بھی کھو دیاتو آنے والی نسلیں سیاسی قیادت کو معاف نہیں کریں گی ہم ایک ڈیم بنانے میں بحث میں الجھ کر کئی دہائیاں ضائع کر چکے جبکہ دشمن ہماری غفلت سے فائدہ اُٹھا کر لداخ اور جموں و کشمیر میں دریائے سندھ پر مزید آٹھ آبی منصوبے شروع کر رہا ہے جن پر وقت ضائع کیے بغیر فوری طور پر اعتراض کرنے کی ضرورت ہے یادرکھیں جو بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اب معترض ہے سمجھ لیں اُسے پاکستان یا پاکستانیوں سے سروکار نہیں ہے۔

مصنف کے بارے میں