ریاست کی بے حسی!

ریاست کی بے حسی!

ٹی وی چینل، سوشل میڈیا، اخبارات پر نظر ڈالیں تو بالکل نہیں لگتا کہ چند ہفتے پہلے پاکستان میں سیلاب ایک بڑی تباہی مچا چکا ہے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم پاکستانی سیاسی کشمکش معاشی بدحالی کے حصوں میں اتنے مصروف ہیں کہ اپنے سیلاب متاثرین بھائی بہنوں اور بچوں کی داد رسی ہی بھول گئے ہیں۔ یہ لاکھوں خاندانوں کی بات ہے چند افراد کی بات نہیں ہے ریاست بھی بھول گئی ہے کہ سخت سردی سر پر ہے اور لاکھوں سلاب متاثرین کھلے آسمان تلے تباہ حال بے یارومددگار آج بھی بیٹھے ہیں۔ بلوچستان میں موسم سرما کی بارشوں کا آغاز ہو گیا ہے سردی میں اضافے سے کیمپس میں بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور جنوبی پنجاب میں بھی سیلاب متاثرین اپنے گھروں کی تعمیر کے لیے حکومت کی امداد کے منتظر ہیں مگر سب سے بُرا حال سندھ میں ہے جہاں مہینوں بعد بھی سیلاب کے پانی کی نکاسی کے لیے کوئی کام نہیں ہو سکا پنجاب کی طرح سندھ میں بھی کئی متاثرین کو گھروں کی تعمیر کے لیے رقم نہیں مل سکی اس کے علاوہ کیمپس میں بھی خواتین اور نومولود بچوں سے متعلق مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں جن پر فوری توجہ کی اشد ضرورت ہے سندھ کے سیلاب متاثرین کیمپس میں 4ہزار سے زائد بچوں کی پیدائش ہو چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نومولود بچے بھی اپنی ماؤں کی طرح غذائی قلت کا شکار ہیں ان معصوموں پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہیں ریاست کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ان سخت سردیوں میں بھی یہ سیلاب زدگان عارضی کیمپ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب ان سیلاب کیمپس میں آفت ٹپک رہی ہے غریبوں کی داد رسی کے لیے سیلاب متاثرین کے لیے اب اس مصیبت کا اس وقت کا اندازہ ہم میں سے یا ہمارے حکمرانوں میں سے کوئی بھی نہیں لگا سکتا وہ اس لیے کہ جب ہمیں سردی محسوس ہو گی تو ہم اپنے اپنے گھروں میں لحاف اوڑھ کر مونگ پھلی مزے سے کھا کر اپنا وقت گزار دیں گے مگر ان کا اس سردی میں جو حال شروع ہو گیا ہے شاید کسی کو ان کا خیال ہی نہیں۔
اگر غور کریں تو یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے حکومت سندھ کی اپنی رپورٹ ہے کہ سندھ کے 30 فیصد علاقوں میں سے سیلاب کا پانی ابھی تک نہیں نکالا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ 60 سے 70 فیصد علاقوں میں سے یہ پانی ابھی تک نہیں نکالا گیا جس میں سب سے زیادہ پانی دادو ڈسٹرکٹ جیکب آباد جامشورو میں موجود ہے یہ ایک پوری پٹی ہے جو بلوچستان سے شروع ہوتی ہے منچھر جھیل تک آتی ہے یہاں پر ابھی تک 60 فیصد علاقے بُری طرح پانی کی لپیٹ میں ہے۔ یہاں پر اب بھی کشتیاں چل رہی ہیں اس سارے متاثرہ علاقوں کو دیکھیں تو یہاں پر کوئی کاشت نہیں ہو سکی نوشہرو کا اٹھارہ فیصد علاقہ پانی کے اندر ہے میرپور خاص سانگھڑ اور بہت سے علاقے ابھی تک پانی میں گھرے ہیں اور پانی نہ نکالنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پانی کے نکاس کے لیے صحیح راستہ ہی نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے پانی کی نکاسی بہت سست روی کا شکار ہے۔
معلومات کے مطابق اس وقت سیلاب متاثرین کی بہت ہی خراب صورت حال ہے جو لوگ کیمپ سے اپنے گھروں میں چلے گئے ان بیچاروں کے گھر مٹی کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں ان کے پاس رہنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ کھانے کو بھی کچھ موجود نہیں ہے۔ مویشی بھی سیلاب سے ہلاک ہو چکے ہیں پانی نہ اترنے سے نئی فصلیں نہیں اُگ سکی۔ گندم کی کاشت نہیں ہو سکی کہا جا رہا ہے کہ سندھ میں اس بار 50 فیصد سے زیادہ علاقوں میں گندم کی کاشت نہیں ہو سکی۔
روٹی کپڑا مکان یہ مسئلہ تو اپنی جگہ بیماریوں کی ایک بہت بہتات ہے محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق لاڑکانہ میں 47 فیصد ملیریا کی بیماری ریکارڈ میں آئی ہے اس طرح باقی علاقوں کا ذکر کریں تو ہر شہر میں 52 فیصد سے زیادہ ہی ملیریا کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں مگر اس سارے معاملے میں دیکھتے ہیں کہ تو خیال آتا ہے کہ ہمارے ملک میں بلند بانگ دعوے کرنے والی ریاست کہاں ہے؟
ہمارے ملک کے عوام کے وفادار بننے والے کہاں ہیں کیا یہ لوگ صرف ووٹ، کنٹینر اور تقریروں کی حد تک ہی محدود ہیں کسی کو ان مجبور لوگوں کا خیال نہیں جو اپنی امداد کے لیے ان لوگوں کی راہ کے منتظر ہیں اس ملک میں دوسرے ممالک سے سیلاب متاثرین کے لیے آنے والی امداد کا پیسہ کدھر ہے؟
میں ایک پاکستانی شہری ہوں میں یہ سوال کر سکتی ہوں کیونکہ میں اپنے سیلاب متاثرہ بہن بھائیوں کو پریشان اور بے یار و مددگار دیکھ رہی ہوں۔ میرا ملک آج تک ان مسئلوں سے کیوں نہیں نکل سکا اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ جو امداد آتی ہے ان لوگوں کے لیے وہ ان تک پہنچائی نہیں جاتی۔ اگر کوئی مدد کرنے جاتا ہے تو صرف فوٹو سیشن کرا کے واپس آ جاتا ہے۔ خدارا رحم کریں ان معصوموں پر یہ بھی ہمارے ملک کے ہی لوگ ہیں جو آپ لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ کیا ریاست اتنی بے حس ہو گئی ہے کہ ان کو ان معصوموں کی تکلیف نظر ہی نہیں آ رہی۔ خدارا ایک نظر کرم ان پر بھی کریں ۔آخر میں یہی کہنا چاہوں گی آپ سب لوگوں کے لیے قیامت خود بتائے گی قیامت کیوں ضروری تھی

مصنف کے بارے میں