عمران خان سے ایک ملاقات

عمران خان سے ایک ملاقات

گزشتہ ہفتے سابق وزیر اعظم عمران خان سے ان کے زمان پارک والے گھر میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں ان سے ملک کی موجودہ صورتحال پر بات چیت ہوئی اور انہوں نے اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان کیا۔ یقینا صحافتی اقدار کے پیش نظر اس ملاقات کی بیشتر گفتگو قلم بند نہیں کی جا سکتی لیکن حدود و قیود سے بچ بچا کر جتنی گفتگو رپورٹ کی جا سکتی ہے اس کی کوشش کی ہے۔
اس ملاقات میں ملک کو درپیش سیاسی و معاشی مسائل، موجودہ صورتحال اور اس کا حل، نئے آرمی چیف کی تعیناتی، شفاف انتخابات کا انعقاد، عالمی قوتوں کی پاکستان میں دلچسپی اور ان کے اپنے اتحادیوں سے تعلقات و دیگر معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ایک بات طے ہے کہ وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ اور گولیاں کھانے کے باوجود اس ملاقات میں عمران خان پُر عزم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور شکر ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے نہ کہ کسی انسان کے، اس لیے وہ موت سے خوفزدہ نہیں اس کا ایک وقت متعین ہے اور کوئی اسے آگے پیچھے نہیں کر سکتا۔
وہ عمران خان جسے ہم نے کرکٹ کے میدانوں میں بھاگتے اور ساری زندگی فعال دیکھا جب کمرے میں داخل ہوا تو دائیں ٹانگ پر پلستر چڑھائے واکر کے سہارے چلتے دیکھا تو عجیب سا لگا۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا ذکر انہوں نے بھی کیا کہ میری زندگی میں یہ مرحلہ بھی آنا تھا۔ خیر گفتگو شروع ہوئی تو ان کا ایک ہی منترا تھا کہ موجودہ سیاسی صورتحال کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے شفاف انتخابات۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ میرٹ پر ہونی چاہیے لیکن میرٹ اور نواز شریف دو مختلف چیزیں ہیں اور وہ ماضی کی طرح ایسا آرمی چیف تعینات کرنے کی کوشش کریں گے جو ان کے کہنے پر چلے، لیکن ماضی گواہ ہے کہ ایسی ہر کوشش نواز شریف کے گلے پڑی ہے کیونکہ آرمی چیف ایک ڈسپلن فورس کا سربراہ ہے نہ کہ کسی کی کٹھ پتلی۔ ماضی گواہ ہے کہ جب جب نواز شریف نے اس حوالے سے گرے لائن عبور کرنے کی کوشش کی اسے منہ کی کھانا پڑی۔
ان کی ایوان صدر میں موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقاتوں کے حوالے سے تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے جنرل باجوہ سے گلہ کیا کہ ان کی حکومت ہٹا کر چوروں کو آپریشن رجیم چینج کے ذریعے مسلط کرنے کے عمل نے ملک کو کہاں پہنچا دیا ہے۔ میرے سوال پر کہ اس پر جنرل باجوہ کا جواب کیا تھا تو عمران خان نے کہا کہ انہوں نے تسلیم کیا اور کہا کچھ کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ شاید کرپشن جنرل باجوہ کے نزدیک مسئلہ ہی نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنانے پر کون مُصر تھا اور اس نے اسلام آباد میں بلاول ہاؤس کی طرز کا 5 کنال کا گھر کس کو دیا۔
عمران خان نے خود پر قاتلانہ حملے کے حوالے سے انہی دو افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا جن کا وہ جلسہ عام اور پریس کانفرنسز میں پہلے ہی ذکر کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں بہت ظالم ہیں اور انہوں نے بلوچستان کے عوام پر بھی بہت ظلم کیے۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ ان دونوں میں سے ایک سینئر افسر نے مشترکہ دوستوں کے ذریعے ان سے ملاقات کی کوشش بھی کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ دونوں افراد حملے والے دن خود کو اپنے ہیڈ آفس کے ایک کمرے میں بند کر کے مانیٹرنگ کرتے رہے لیکن بچانے والا مارنے والے سے زیادہ طاقتور ہے اور ان کی جان بچ گئی جس سے ان دونوں کو مایوسی ہوئی۔ ایک سوال پر انہوں نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ ان پر مزید جان لیوا حملے ہو سکتے ہیں لیکن اس طرح کے خدشات کے باوجود وہ اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ ایک سوال پر کہ اس ادارے میں کوئی بیلنس سوچ نہیں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ چیف کے پاس اختیارات ہی اتنے ہیں کہ کسی اور کی حیثیت ہی نہیں۔
خود پر قاتلانہ حملے کے بعد اپنی پارٹی کے ردعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ مجھے یہ گولی آپ کی وجہ سے لگی ہے اب آپ کو لیڈرشپ دکھانے کے لیے آگے آنا ہو گا۔ میرے سوال پر کہ ان کا جواب کیا تھا تو عمران خان کا جواب معنی خیز تھا کہ آپ بہادری اور حوصلہ کسی میں منتقل نہیں کر سکتے۔ البتہ انہوں نے اسد عمر، اعظم سواتی اور فرخ حبیب سمیت متعدد کی تعریف بھی کی۔ پھر بھی عمران خان کے اس جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ کے ردعمل سے بھی مطمئن نہ تھے۔ اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے حوالے سے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پرویز الٰہی کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
مائنس عمران خان فارمولے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے انہوں نے اپنے سابقہ خیالات کا اظہار کیا کہ اس کی موجودگی میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔
لانگ مارچ کے حوالے سے وہ پُرعزم تھے ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے راولپنڈی سے لیڈ کریں گے اور پُریقین تھے کہ اس کا اختتام عام انتخابات کے انعقاد پر ہو گا۔ جب پوچھا گیا کہ زخمی اور پلستر چڑھی ٹانگ کے ساتھ وہ کس طرح میدان میں آ کر لیڈ کریں گے تو انہوں نے اپنی واکر کی طرف اشارہ کر کے کہا اس کے سہارے۔ یقیناً ان کی صحت کے مدنظر یہ ایک خطرناک فیصلہ ہو گا لیکن اس حوالے سے ان کی پارٹی لیڈر شپ بھی بے بس نظر آئی۔
حکومت اور اپوزیشن کے حوالے سے ڈیڈ لاک دور کرنے کے لیے عدلیہ کے کسی رول کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف شفاف انتخابات چاہتے ہیں۔
قارئین اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں