سلیکشن

سلیکشن

نئے آرمی چیف کا انتخاب ہو چکا ہے اور اسکا اعلان بھی جلد ہو جائے گا، اسلام آباد کا گھیراؤ کئے عمران خان بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک بار جب کوئی سلیکشن ہو جاتی ہے تو پھر ادارہ اس کے پیچھے لوہے کی دیوار مانند کھڑا ہو جاتا ہے، تو پھر عمران خان ایسے محاذ پر کیوں کھڑے ہیں جہاں سے پسپائی یقینی ہے؟ کیا عمران خان بطور ایک باؤلر اس پوزیشن میں ہیں کہ ایمپائر کی ہی تعیناتی کیخلاف اپنی انگلی کھڑی کر کے ایسی اپیل کریں جس کا مخاطب بھی وہی ایمپائر ہو؟ شاید اسی لئے عمران خان نے اب چیف سلیکٹر شہباز اور اس کی ممکنہ سلیکشن پر اعتراض کے محاذ سے اپنی فوجیں قبل از وقت الیکشن کی تاریخ کے محاذ کی جانب بھیجنا شروع کر دی ہیں۔ اب اس محاذ کا ذرا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس محاذ پر بھی نئی اسٹیبلشمنٹ اپنی نئی پالیسی کے تحت ان کی کوئی خاص مدد نہیں کر پائے گی۔ عمران خان کو شہباز شریف سے ہی رجوع کرنا پڑے گا، یوں خان صاحب کو اپنی سیاسی قالین کے داموں کو آسمان سے زمین پر لانا پڑے گا کیونکہ ایسی قالینوں کا ممکنہ گاہک رکتا نہیں ہے، جس طرح شہباز شریف ہمراہ نواز شریف کے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے اختیار کی زمینی اور سیاسی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا اسی طرح اب خان صاحب کو ان کے من پسند “چوروں اور ڈاکوﺅں” سے بھی مذاکرات کرنے ہی پڑیں گے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے ماورائے آئین مذاکرات کے لئے ریاست کے سربراہ یعنی ایوانِ صدر کے صوفوں پر بیٹھا جا سکتا ہے تو پھر انہی صوفوں پر حکمران اتحاد (صرف ن لیگ نہیں) سے آئینی حدود میں رہ کر مذاکرات کیوں نہیں کئے جا سکتے؟ کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی پی ڈی ایم سے نئے الیکشن کی تاریخ پر بات چیت شروع نہیں کر سکتی؟ مگر خان صاحب جارحانہ فیلڈنگ لگا کر بیٹسمین شہباز شریف پر دباؤ ڈال کر انہیں اننگ ڈیکلیئر کرنے پر مجبور کرنے کی حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں اور اگر مذاکرات ہوئے بھی تو جارحانہ فیلڈنگ نہیں ہٹائی جائے گی۔ ایسی جارحانہ فیلڈنگ کا ایک نقصان بھی ہے اور وہ یہ کہ فیلڈنگ کرنے والے کھلاڑی اور سٹیڈیم میں موجود تماشائی بوریت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس لئے خان صاحب واسطے بھی وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے سٹیڈیم کو ان کے ہوم کراؤڈ میں بدل تو دیا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ وفاقی و پنجاب حکومت نے بلٹ پروف شیشے کے بغیر انہیں ہوم کراؤڈ کے سامنے بھی آنے کی اجازت نہیں دینی۔
موجودہ صورتِ حال میں ایوان صدر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن سکتا ہے جہاں الیکشن کی تاریخ پر بات ہو سکتی ہے، اپریل میں تو انتخابات کا ہونا خارج از امکان دکھائی دیتا ہے (جسکی وجہ خود خان صاحب کی پسند و ناپسند ہے) تو اس کے بعد پھر آ جاتا ہے بجٹ جو موجودہ حکمران اتحاد ہی بنائے گا اور یہ جانتے ہوئے بنائے گا کہ آئندہ الیکشن سے پہلے یہ اس اتحاد کا آخری بجٹ ہو گا۔ جس طرح عمران خان کی حکومت نے جاتے جاتے آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کی جانتے بوجھتے خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل کی قیمتیں کم کر دی تھی اور ایل این جی گیس کی درآمد کی ایڈوانس بکنگ ہی نہیں کرائی اور شہباز حکومت کو پھنسا دیا تھا اسی طرح اب عمران خان کو بھی آنے والے بجٹ میں حکمران اتحاد کی طرف سے ممکنہ بارودی سرنگوں کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ یہی چیز عمران خان کے لئے بڑی پریشانی کا باعث ہے حالانکہ ان کے لئے زیادہ بڑی پریشانی اس بات کی ہونی چاہئے کہ پہلی کی طرح اب بھی ان کے پاس نہ تو کوئی معاشی پالیسی ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی ماہرین۔ جلد انتخابات کا مطالبہ کرنے والے صرف رولا نہیں ڈالتے بلکہ اپنی پارٹی کا انتخابی منشور بھی سامنے لاتے ہیں اور عملی طور پر انتخابات کی تیاری بھی کرتے ہیں۔ مگر پی ٹی آئی سیاسی اور نظریاتی طور پر ایک تضادات سے بھرپور جماعت بن چکی ہے جس کو ابھی تک یہ نہیں معلوم کے فوج کا سیاست میں کردار ہونا چاہئیے یا نہیں۔
چیف سلیکٹر شہباز شریف کی طرف سے نئے آرمی چیف کے نام کے اعلان کے بعد عمران خان کو کسی حد تک کچھ سیاسی بونس پوائنٹ ضرور ملیں گے، ان کے چند مطالبے ایسے ہیں جن کا ہر نئے آرمی چیف کے آتے ہی منظور ہونا ایک معمول کی بات ہوتی ہے۔ جیسا کہ آرمی اور اس کے خفیہ اداروں میں تبادلے و ترقیاں۔ ایسا ہوتے ہی عمران خان صاحب کے مخصوص افسران کے حوالے سے تحفظات دور ہوں گے اور خان صاحب کو ایوان صدر کی راہ دکھائی دینے لگے گی۔
تو ثابت یہ ہوا کہ نئے آرمی چیف کا اعلان عمران خان کی سیاسی حکمت عملی میں اہم موڑ لا سکتا ہے مگر اسکے لئے وزیر اعظم شہباز شریف کو شہباز سپیڈ کے ساتھ روبصحت ہو کر واپس پاکستان پہنچنا ہو گا کیونکہ نہ تو کسی آرمی چیف کے بیرون ملک ہوتے ہوئے اس کی برطرفی مناسب ہوتی ہے اور نہ ہی کسی آرمی چیف کی تعیناتی کا اعلان لندن سے کئے جانا کسی طور بھی مناسب ہو گا۔

مصنف کے بارے میں