کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نہ کرے: جسٹس اعجاز الاحسن

کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نہ کرے: جسٹس اعجاز الاحسن

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) میں ہونے والی حالیہ ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نہ کرے۔ 
تفصیلات کے مطابق آج سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت کی جانب سے نیب قوانین میں کی گئی ترامیم کے بنیادی حقوق سے متصادم ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ بدعنوان افراد کے بری ہونے سے عوام کے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو رہی ہے اور کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آ سکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟ اگر ایف بی آر کسی کو ٹیکس چھوٹ دے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور ہو گی؟
بینچ کے سربراہ اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اس بات پر ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہئے، اقوام متحدہ کا انسداد کرپشن کنونشن بہت واضح ہے، کیا ہم اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کر سکتے ہیں؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قوانین میں ترامیم کے بعد بہت سے مقدمات کو نیب سے لے کر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے، قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو، یہ میری ذاتی رائے ہے کہ مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے، جس ملک میں کرپشن ہو گی اس کا بیڑا غرق ہو گا، کرپشن کو اتنا درد ناک جرم بنانا چاہئے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نا کرے۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت پارلیمینٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟ اور اگر ایسا ہوا تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں، عدالت ایگزیکٹیو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہوں۔ اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے بلکہ قانونی معیار عدالت نہیں آئین طے کرتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر ملک میں کرپشن پر قوانین موجود ہی نا ہوں تو عدالت کہہ سکتی ہے کہ بنائیں اور آخر میں قانون پارلیمینٹ نے ہی بنانا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نیب ترامیم کالعدم ہونے سے پرانا قانون ازخود نافذ ہو جائے گا؟
عمران خان کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ موجودہ نیب ترامیم سے کرپٹ ملزمان بری ہو کر مزے سے گھروں میں بیٹھے ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ یہاں تو لوگ آئین کو سبوتاژ کر کے بھی گھروں میں بیٹھے ہیں۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا نیب ترامیم سے کوئی ثابت شدہ کرپٹ مجرم بری ہوا ہے؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ نیب ترامیم سے اب پیسے معاف کر کے کرپشن چارجز ختم کئے جا رہے ہیں۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب ٹرائل کے بعد ثابت ہوا ہی نہیں کہ ایک شخص کرپٹ ہے یا نہیں تو بنیادی حقوق کیسے متاثر ہو گئے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل کو 17 نومبر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

مصنف کے بارے میں