مولانا عادل خان کا قتل: پولیس نے واردات میں ملوث ایک ملزم کا خاکہ جاری کر دیا

مولانا عادل خان کا قتل: پولیس نے واردات میں ملوث ایک ملزم کا خاکہ جاری کر دیا

کراچی: جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان کو گزشتہ  دنوں  ٹارگٹ کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔ ملزموں نے کورنگی کے علاقے میں کارروائی کی اور آسانی سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اب پولیس نے عینی شاہدین اور سی سی ٹی وی کی مدد سے ان ملزمان میں سے ایک کا خاکہ جاری کر دیا گیا ہے۔ ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

خیال رہے کہ مولانا عادل اور ڈرائیور کے قتل کا مقدمہ پولیس کی مدعیت میں شاہ فیصل تھانے میں درج کیا گیا ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ مولاناعادل اور ان کے ڈرائیور کو گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق 3 ملزمان جس میں سے ایک نے شلوار قمیض اور دو نے پینٹ شرٹ پہنچ رکھی تھی، گاڑی پر پستول سے فائرنگ کی اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہوگئے۔

آئی جی سندھ مشتاق مہر نے جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور مقصود کی شاہ فیصل کالونی میں قتل کی تحقیقات کیلئے کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کی سربراہی میں 4 رکنی ٹیم تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی میں کراچی پولیس چیف سمیت ڈی آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ عمر شاہد، ڈی آئی جی شرقی نعمان صدیقی اور ایس ایس پی کورنگی فیصل عبداللہ چاچڑ شامل ہیں۔

گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے وزیر ریلوے شیخ رشید کو مولانا عادل قتل کیس میں شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے جس کی ہر پہلو سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ شیخ رشید نے کہا تھا کہ اپوزیشن کے جلسے جلوسوں میں کورونا پھیلنے اور دہشتگردی کا خدشہ ہے۔ اس بیان کے بعد مولانا عادل پر حملہ ہوا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس میں وزیر ریلوے شیخ رشید کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ مونالا عادل کے صاحبزادے نے اپنے والد کی سیکیورٹی کے لیے کہا تھا تاہم مرحوم کی جانب سے خود ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی۔

ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا عادل کے قتل میں دو پڑوسی ممالک کے ملوث ہونے کے کچھ شواہد ملے ہیں۔ جائے وقوع سے پستول کے جو خول ملے ان کی فارنزک رپورٹ آگئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ اسلحہ پہلے کسی واردات میں استعمال نہیں ہوا۔ واقعے کی جیوفینسنگ بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ تفتیش میں اشارے ملے ہیں کہ مفتی تقی عثمانی اور مولانا عادل پر حملے میں ایک ہی گروپ ملوث ہے تاہم ابھی حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

آئی جی سندھ نے مولانا عادل پر فائرنگ کے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کر دی تھی جس میں کہا گیا کہ مولانا عادل کا ایک ساتھی خریداری کیلئے گاڑی سے اترا اور اسی دوران موٹر سائیکل سوار ملزموں نے فائرنگ کر دی۔ دہشتگرد مولانا عادل پر دائیں جانب سے حملہ آور ہوئے۔ دہشت گردوں کے آتشی اسلحہ سے نکلنے والی پانچ گولیاں مولانا عادل کو لگیں۔ پانچ میں سے چار گولیاں مولانا عادل کے سر اور چہرے پر لگیں اور ایک بازو میں لگی۔ مولانا عادل کے سر اور چہرے پر لگنے والی گولیاں موت کا سبب بنیں۔ مولانا کے ڈرائیور مقصود کو صرف ایک گولی لگی۔ حملہ آوروں نے ڈرائیور کے سر پر وار کیا۔ مقصود احمد کے سر میں لگنے والی واحد گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔

مولانا عادل کی گاڑی پر فائرنگ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی ہے جس میں حملہ آور کو گولیاں مارنے کے بعد پیدل سڑک پار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک نے موٹر سائیکل سے اتر کر فائرنگ کی جسکے بعد تینوں حملہ آور موٹر سائیکل پر فرار ہوئے۔ پولیس کے مطابق مولاناعادل پرفائرنگ دارالعلوم کراچی سے واپسی پر ہوئی۔ مولانا عادل کا ساتھی عمیر اس واقعہ میں محفوظ رہا اور وہ ہسپتال میں ہے۔ کراچی پولیس چیف کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد تین تھی جو ایک ہی موٹر سائیکل پہ سوار تھے۔