اقتدار کا کھیل

اقتدار کا کھیل

ملکی نظام حکومت پر نظر رکھنے والے جمہوری حلقے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا نظام بدلتے ایک پل لگتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے اول روز سے یہ ہوتا آرہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی گاڑی خراب ہونے سے لے کر مادر ملت کو دفن کرنے کے بعد ان کی قبر پر پہرے دار بٹھانا آج بھی چیخ چیخ کر یہ بتا رہا ہے کہ ہم آج بھی غلام ہیں تقدیر بدلی ہے نا نصیب بدلے ہیں اگر کچھ بدلا ہے تو وہ صرف حکمران بدلے ہیں غلامی بدستور چلتی آرہی ہے۔ راقم اپنے گزشتہ کالم میں تفصیل سے یہ ذکر کر چکا ہے کہ ملک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومتی نظام کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی اس کے کوئی آثار مستقبل میں دکھائی دے رہے ہیں البتہ اپنا طریقہ کار ضرور تبدیل کیا ہے تگنی کا ناچ نچانا ان کی سرشت میں شامل ہو چکا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان انہی کے ہائبرڈ نظام کی پیداوار تھے ملک کی دو بڑی پارٹیوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کوناکوں چنے چبا کر ان کو اس قدر مجبور کر دیا گیا کہ وہ دوبارہ اسی رنگ میں شامل ہو گئے جس رنگ سے نکلنے کے لیے دونوں نے ان گنت جانی و مالی نقصان اٹھایا تھا۔ نظریہ ضرورت ہے جو کہ دفن ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ نجانے اس سے کب جان چھوٹے گی یا شاید وقت آنے پر سیاسی جماعتیں اس کو قبول کر لیتی ہیں۔ ایک جادو کی چھڑی ہلنے کی دیر ہوتی ہے سب بیانیہ،سوچ، جدوجہد دم توڑ جاتی ہے۔ اسحا ق ڈار 
صاحب کا وطن واپس آنا وزیر خزانہ بننا خوش آئند بات ہے مگر ایکدم ہونے پر ہر کوئی ششدر ہے مریم نواز صاحبہ کا بری ہونا بلاشبہ اچھا عمل ہے مگر ایکدم کیوں یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ خوف کی فضا نے ہر زبان کو گنگ کر کے رکھ دیا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہائبرڈ نظام کے تحت عمران خان کو لانے والوں کے درمیان گھمسان کا رن کا میدان کیوں سجا ہوا ہے اس لڑائی میں تحریک انصاف کے سربراہ نے ملکی قومی سلامتی اور قومی آزادی کا بھرکس کیوں نکالا ہوا ہے؟ جان بوجھ کر ایک عام سفارتی مراسلے کو حکومتی خاتمہ کی غیر ملکی سازش کا ثبوت بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی  امریکہ جیسے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات کشیدہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ عوام اور کارکنان کو گمراہ کرنے کے لیے عجیب و غریب حربے استعمال کیے گئے یہ الگ بات ہے کہ آڈیو لیکس نے آخر کار امریکی سازش کا من گھڑت جھوٹے بیانیہ کا جنازہ نکال دیا تحریک انصاف کے سربراہ کا اتنا سنگین پروپیگنڈا ملکی قومی سلامتی کو داؤ پرلگانے کی اتنی سنگین حماقت وہ بھی صر ف اقتدار کے حصول کے لیے اس سے بڑا اور سنگین جرم اور کیا ہو سکتا ہے۔ امریکہ مخالف نعروں کی بنیاد پر ایک بار پھر اقتدار پر براجمان ہونے کی منصوبہ بندی کو عمل جامہ پہنانے کے لیے نہ صرف امریکہ بلکہ اپنے ہی دفاعی اداروں کے خلاف نفرت انگیز تحریک چلا دی گئی اس کا روں کاری میں کبھی جانور۔ کبھی چوکیدار تو کبھی جانبدار ہونے کے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ میر جعفر، میر صادق کے القابات دیے گئے بہرحال یہ سچ ہے کہ یہ لڑائی تحریک انصاف کی قیادت اور ان کو لانے والوں کے درمیان اندر کی لڑائی تھی جب اس لڑائی کے شعلے باہر نکلے تو ہوا نے مزید ان کو بھڑکا دیا ایسا ہونا قدرتی امرتھا کیونکہ جب کسی نا اہل شخص کو من پسند کی بنیاد پر اتنے بڑے منصب پر بٹھا دیا جاتا ہے جس کا وہ ہرگز اہل نہ ہو یقینا وہ حکومتی نظام کو تہس نہس ہی کر کے رکھ دے گا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا جب دو من مرضی کرنے والوں کا آپس میں ٹکڑاؤ ہوا تو پھر ہائبرڈ نظام کے حامیوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو سبق سکھانے کے لیے تحریک عدم اعتماد کا سہارا لے کر اس کا قلع قمع کر دیا۔ سب سے اہم یہ بات ہے اس سارے کھیل کے پیچھے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مضبوط بیانیوں کو بھی ختم کرنا تھا وہ اپنے مقصد میں مکمل طور پر کامیاب ہوئے نہ صرف اپنے بنائے ہوئے بت کو توڑا بلکہ نظام کو ایک بار پھر اپنے کنٹرول میں کر لیا یہی وجہ ہے کہ اب تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلزپارٹی تینوں جماعتیں کمزور دفاعی پوزیشن پر کھڑی نظر آرہی ہیں۔ اس ملک میں جیت سیاسی جماعتوں کا مقدر کبھی بنی ہے اور نہ ہی کبھی بننے کے کوئی شواہد نظر آ رہے ہیں اقتدار کا کھیل جاری ہے۔ سب جماعتوں کے سربراہ تھرڈ ایمپائر کی انگلی کے اشارے کے منتظر پائے جاتے ہیں تھرڈ ایمپائر کی انگلی جس کی جانب اٹھتی ہے اس کو کھیل کے میدان سے باہر نکال دیا جاتا ہے شاید یہی ہمارا مقدر ہے۔ 

مصنف کے بارے میں