ماہ اکتوبر، جمہوریت اور ہم!

ماہ اکتوبر، جمہوریت اور ہم!

چند دن پہلے 12 اکتوبر خاموشی کے ساتھ گزر گیا۔بالکل اسی طرح جیسے 7 اکتوبر کا دن گزر گیا۔ یہ دونوں دن پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔اصولی طور پر ہمیں ایسے تاریخی دنوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ ان کو یاد کر کے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ لیکن سبق سیکھنا تو دور کی بات، محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم یہ دن فراموش کر بیٹھے ہیں۔ 7 اکتوبر 1958 کو پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء نافذ ہوا تھا۔ یہ سات اور آٹھ اکتوبر کی درمیانی شب تھی۔ پاکستان کے پہلے صدر جنرل اسکندر مرزا نے آئین معطل کیا، اسمبلی تحلیل کی،سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا، مارشل لاء نافذ کیا اور جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ ایوب خان اپنی سوانح حیات فرینڈز ناٹ ماسٹرز (friends not masters)  میں تحریر کرتے ہیں کہ" یہ (یعنی آئین معطل کر نا اور مارشل لاء لگانا)  ملک بچانے کی آخری کوشش تھی"۔ اکتوبر ہی کے مہینے میں پاکستان کی  تاریخ کا چوتھا اور اب تک کا آخری مارشل لاء نافذ ہوا تھا۔ 12 اکتوبر1999 کو جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا، وزیر اعظم کو گرفتار کیا اور مارشل لاء نافذ کر دیا۔ جنرل مشرف بھی تسلسل کیساتھ یہ جواز پیش کیا کرتے تھے کہ مارشل لاء کا نفاذ انہوں نے ملک کے مفاد کی خاطر کیا تھا۔ 
پاکستان کے پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کہا کرتے تھے کہ سیاست دانوں کی مالی کرپشن، ان کے باہمی جھگڑے، انتخابی دھاندلی اور عوام کے استحصال کو دیکھتے ہوئے، انہوں نے بہ امر مجبوری مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔جنرل پرویز مشرف بھی کم و بیش انہی وجوہات کا تذکرہ کر کے اپنے غیر آئینی اقدام کا جواز گھڑا کرتے تھے۔ پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرنے والوں کی تقاریر اور بیانات کا جائزہ لیں تو ہر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ اس نے انتہائی مجبوری میں اور ملک کے وسیع تر مفاد میں مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔مارشل لاء دور کے یہ حکمران سیاستدانوں کی کرپشن، غیر ذمہ داری اور باہمی لڑائی جھگڑوں کا ذکر بھی تسلسل کیساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔ تمام آئین شکن، آئین پاکستان کو بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس ضمن میں ان سب کے خیالات اور بیانات کافی ملتے جلتے ہیں۔ اسکندر مرزا نے آئین معطل کر کے اور ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تعینات کر کے پاکستا ن میں غیر جمہوری حکمرانی کی داغ بیل ڈالی تھی۔قدرت اللہ شہاب اپنے زمانے میں اسکندر مرزا اور ایوب خان کے کئی قصے بیان کرتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے یہ دونوں حضرات سیاستدانوں اور آئین کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ شہاب نامے میں اس قصے کا ذکر ملتا ہے جب اسکندر مرزا نے آئین پاکستان کو ٹریش یعنی کوڑا کرکٹ کہہ ڈالا تھا۔ جنرل ضیا الحق بھی کہا کرتے تھے کہ آئین ایک کتاب ہی تو ہے، جسے وہ چاہیں تو ر دی کی ٹوکری میں پھینک سکتے ہیں۔ 
پاکستان میں جس آمر نے بھی مارشل لاء لگایا۔ اس نے سیاسی انتشار اور افراتفری کا ذکر ضرور کیا۔ اس پہلو کے قابل جواز ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے قطع نظر، یہ حقیقت ہے کہ سیاسی انتشار، افراتفری اور بے یقینی کی وجہ سے ملک کو ہمیشہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے ہی ملک میں غیر جمہوری قوتوں کو تقویت ملی۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے قیام  کے بعد گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا اس نے بہت سے مسائل کو جنم دیا۔ وہ سیاسی رہنما جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ جن کی محنت اور جانفشانی کی وجہ سے قیام پاکستان ممکن ہو سکا تھا، پاکستان بننے کے بعد باہمی سیاسی اختلافات اور حصول اقتدار کے جھگڑوں میں الجھ گئے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہمارے ہاں کئی ایسی لائبریاں ہیں جن میں پاکستان بننے سے لے کر اب تک چھپنے والے اخبارات کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس ریکارڈ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اختلافات، بیانات اور ملکی مسائل ہر زمانے میں ایک جیسے رہے ہیں۔ و ہمارے ہاں جمہوری رویے پروان نہیں چڑھ سکے۔ اس میں سیاستدانوں کا قصور سب سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر انتخابات جمہوریت کے لئے نہایت اہم ہوتے ہیں۔ لیکن سیاست دانوں نے اس معاملے میں اچھی روایات کو فروغ نہیں دیا۔ انتخابات کا انعقاد اپنے وقت پر نہیں ہوتا رہا۔ جب بھی انتخابات ہوئے ان کے نتائج متنازعہ رہے۔ 
انتخابی تاریخ دیکھ لیجئے۔پاکستان کا پہلا الیکشن 23 سال بعدہوئے۔ ان انتخابات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دو لخت ہو گیا۔ 1977 میں دوسرے انتخابات ہوئے تو ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں طویل مارشل لاء کا نفاذ ہو گیا اور وزیر اعظم (ذولفقار علی بھٹو) کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ نوے کی دہائی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی رہیں۔ ملک میں انتہا درجے کی سیاسی بے یقینی رہی۔ اور آخر کار ملک ایک بار پھر مارشل لاء کی نذر ہو گیا۔  
سیاست دانوں کے لڑائی جھگڑے، احتجاجی سیاست، مفاد عامہ کے(صفحہ5پر بقیہ نمبر1)
 منصوبوں اور معاملات کو سیاست کی نذر کرنا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ چند برسو ں سے سیاست میں زیادہ منفی رویے در آئے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہر حد پار کر لی ہے۔ آئے روز سیاسی الزام تراشی اور بد کلامی سننے کو ملتی ہے۔ ایسے میں کسے خبر کہ سات اور بارہ اکتوبر کو یاد کیا جائے۔ 
وہ قومیں جنہوں نے ترقی کی اور دنیا میں نامور کہلاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ملکی تاریخ میں ہونے والے سانحات اور واقعات سے سبق سیکھا، اپنا محاسبہ کیا اور اس کے بعد آگے بڑھیں۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ معاملہ ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ کے اہم دن یاد ہی نہیں۔ کچھ برس سے ہم سقوط ڈھاکہ جیسا اہم اور سبق آموز دن بھی نظر انداز کرنے لگے ہیں۔ ایسے حالات میں، کسی نے کیا سبق سیکھنا اور آگے بڑھنا۔
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر

مصنف کے بارے میں