پاکستان امریکی امداد کا محتاج نہیں، اب امریکہ سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جا ئے گا، خواجہ آصف

 پاکستان امریکی امداد کا محتاج نہیں، اب امریکہ سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جا ئے گا، خواجہ آصف

اسلام آباد: وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان امریکی امداد کا محتاج نہیں،اب امریکہ سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جا ئے گاافغانستان میں طالبان کی افغان حکومت سے برسوں سے جنگ چل رہی ہے، امریکہ سے کہا ہے کہ وہ خطے میں اپنا طریقہ کار تبدیل کرے، دنیا کو بتانا ہے کہ پاکستان مستعدی سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان نے اپنے وسائل سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی ہے دسمبر میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان گفتگو ہو گی ۔ چین میں وزیر خارجہ، مشیر خارجہ اور دیگر رہنما ئوں سے ملاقات ہوئی، ایران میں بھی امریکی پالیسیوں پر تشویش پائی جاتی ہے۔

ایران میں صدر حسن روحانی، نائب صدر اور وزیر خارجہ سے افغان معاملے پر ہم آہنگی پائی گئی ایران اور ترکی میں افغانستان سے باہمی تعلقات پر بھی بات ہوئی۔ امریکہ میں بارہ تیرہ روز قیام رہے گا۔ امریکہ میں روسی اور افغان وزیر خارجہ سے بھی ملاقاتیں ہوں گی، افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات ہو گی ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف نے چوہدری نثار سے اپنی ناراضگی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے اصغر خان کیس میں اپنی اوقات سے زیادہ بڑی بات کردی تھی اس کے علاوہ ناراضگی کی کوئی اور وجہ نہیں اس کے بعد میری ان کے ساتھ بول چال بند ہوئگی ۔انہوں نے کہا کہ اپنا گھر درست کرنے کے بیان پر 100فیصد قائم ہوں نوازشریف میرے قائد ہیں ۔

انہوں نے ہائوس درست کرنے کے بیان کی توثیق کی اگر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہوا تو ہمارا ہائوس ان آرڈرنہیں میرے غیر ملکی ہنگامی دوروں کا مقصد یہی ہے کہ وزیر خارجہ بننے کے بعد مجھے انڈر اسٹینڈنگ کی ضرورت تھی کہ ہم خارجہ تعلقات میں کہاں کھڑے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی وہ ہمارے لئے خوشگوار نہیں تھی اہم ملکوں میں پاکستانی سفیروں کی کانفرنس میں مشورے مانگے گئے کہ خارجہ پالیسی کو مزید کس طرح متحرک کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے ہم بحیثیت پاکستان ملک کے اس سے اتفاق نہیں کرتے افغان مسئلے کو جو حل صدر ٹرمپ تجویز کررہے ہیں وہ درست نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی وہ حل ناکام ہوچکا ہے ۔ اگر وہ 16 ممالک  کے ساتھ فوجی حل نہیں ڈھونڈ سکے تو مزید فوج بھیجنے سے یہ حل کیسے ممکن ہوگا۔ 40فیصد افغانستان کا حصہ طالبان کے کنٹرول میں چلا گیا ہے داعش بھی وہاں آگئی ہے ۔ ان کا فوجی حل ڈھونڈتے ڈھونڈتے آدھا افغانستان ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ہمارا موقف ہے امریکہ کو نئی اپروچ اپنانی چاہیے ہم اس نئی اپروچ کا حصہ بننے کیلئے تیار ہیں ہمارے نزدیک فوجی حل کی سوچ درست نہیں ہے ۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میرے چین کے دورے میں وزیر خارجہ مشیر خارجہ پالیسی اور دیگر رہنمائوں سے اہم ملاقاتیں ہوئی اور ہمارے موقف کی بڑی پذیرائی ہوئی اس کے بعد میں ایران گیا وہاں بھی یہی موقف تھا کہ افغانستان کے حوالے سے امریکن پالیسی درست نہیں ہے ۔ وہاں بھی امریکی پالیسی پر تشویش پائی گئی ۔ لہذا افغان مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈاجائے ایرانی صدر نائب صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقات میں افغانستان کے بارے میں ہمارے خیالات میں ہم آہنگی تھی ترکی میں بھی ہمارے نقطہ نظر کو بڑی پذیرائی ملی میرے دوروں میں افغانستان اور باہمی تعلقات پر فوکس تھا ۔ اب جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے بارہ تیرہ دن کیلئے امریکہ جارہاہوں وہاں امریکی حکام روسی وزیر خارجہ افغان وزیر خارجہ سے ملاقاتیں ہوں گی.