ساتواں آئی جی کب تک چلے گا؟

 ساتواں آئی جی کب تک چلے گا؟

سیاسی واصلی حکمرانوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اُن کی سوچ ذرا وکھری ٹائپ کی ہوتی ہے ۔ اپنی کسی بات سے کسی کا اختلاف چاہے وہ بالکل جائز ہی کیوں نہ ہو، کرنے والے کو وہ اپنا ’’ذاتی دُشمن‘‘ سمجھتے ہیں، یہی ’’مائینڈسیٹ‘‘ ہے جس نے ہرشعبے کو برباد کرکے رکھ دیا ہے، میرے ایک دوست آرپی او ملتان تھے، وہ بعض اوقات حکمرانوں کی ’’خدمت‘‘ یا مالش میں اپنے عہدے کی گریس کی پروا بھی نہیں کرتے تھے، اُنہیں جب تبدیل کیا گیا، میں نے اُن سے پوچھا ’’آپ کی اچانک ٹرانسفر کی وجہ کیا بنی ؟‘‘…وہ فرمانے لگے ’’عہدے کی گریس کو کوئی افسر کتنا دائو پر لگاسکتا ہے؟ حکمران اگر آرپی او کو اپنا ’’اردلی‘‘ سمجھنا شروع کردیں اور آرپی او کا ضمیر پوری طرح ابھی مرانہ ہو، وہ خود حکمرانوں سے کہہ دیتا ہے میں مزید بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا، مجھے تبدیل کردیں‘‘ کی نوبت اُس صورت میں آتی ہے جب کسی کو یقین ہو جائے یہ ’’بے عزتی پروف ‘‘ہے، یعنی اِس کی جتنی چاہے بے عزتی کرلیں اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا … شہباز شریف کے زمانے میں اکثر افسران کی جو بے عزتی ہوتی تھی، اکثر افسران اُسے اپنی ’’عزت‘‘ سمجھتے تھے،… ایک بار میری موجودگی میں ایک افسر کو جس توہین آمیز الفاظ میں اُنہوں نے ڈانٹا، بعد میں اُس افسر سے میں نے پوچھا’’آپ ایسی بے عزتی کیسے برداشت کرلیتے ہیں؟‘‘… وہ بولے ’’بے عزتی ہی کرتا ہے ناں، تبادلہ تو نہیں کرتا‘‘…اِس پر مجھے وہ خاتون یاد آگئی جس نے اپنی سہیلی سے کہا ’’تمہارے شوہر کے بارے میں سُنا ہے وہ بُرے کام کرتا ہے… سہیلی بولی ’’وہ بُرے کام ہی کرتاہے ناں ہے بیاہ تو نہیں کرتا ناں‘‘…اِس پس منظر میں اُس افسر کا یہ کہنا بالکل درست تھا ’’بے عزتی ہی کرتا ہے ناں، تبادلہ تو نہیں کرتا‘‘…سابقہ حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں میں فرق یہ ہے سابقہ حکمران زبان سے بے عزتی کرتے تھے موجودہ حکمران تبادلوں سے کرتے ہیں۔ میرے خیال میں افسران کی اکثریت سے اگر پوچھا جائے آپ بے عزتی کی کون سی قسم پسند فرمائیں گے وہ زبان کی بے عزتی کو تبادلوں کی بے عزتی پر فوقیت دیں گے… جتنی سروس سابق آئی جی انعام غنی موجودہ حکمرانوں کو دے رہے تھے ساتھ ہی ساتھ پولیس اصلاحات کی کوشش بھی کررہے تھے، اُس پر اُن کا تبادلہ بنتا تو نہیں تھا، مگر اُوپر میں نے عرض کیا ناں حکمرانوں کی پسند و ناپسند کا اپنا ہی ایک معیار وترجیحات ہوتی ہیں، بس میں یہ کہتاہوں حکمرانوں کی ترجیحات ہوتی ہیں تو افسروں کی بھی ہونی چاہئیں۔ مرحوم آئی جی ناصردرانی سے میرا ذاتی تعلق تھا، وہ دل کی بات کُھل کر مجھ سے کرلیا کرتے تھے، شہباز شریف نے اُنہیں آئی جی پنجاب بنانے کے لیے انٹرویو کیا، اُن سے پوچھا ’’آئی جی پنجاب بننے کے بعد آپ کی ترجیحات کیا ہوں گی ؟ ، اُنہوں نے فرمایا ’’سر باقی ترجیحات تو بعد کی بات ہے، اگر آپ واقعی مجھے یہ اعزاز سونپنا چاہتے ہیں پہلے مجھے اِس کی گارنٹی دیں پنجاب پولیس ہرقسم کی سیاسی مداخلت سے پاک ہوگی۔ اُس کے بعد میں آپ کو رزلٹ نہ دے سکا آپ جو چاہے مجھے سزادے لیجئے گا‘‘… شہباز شریف فرمانے لگے ’’آپ نے بڑی زبردست بات کی ہے، مجھے ایسے ہی آئی جی کی ضرورت ہے۔ بس آپ تیاری کریں ایک دوروز میں آپ کا نوٹیفکیشن ہو جائے گا ‘‘…اُس نوٹیفکیشن کے نہ ہونے کے ذمہ دار ظاہر ہے ناصر درانی خود تھے، وہ اگر یہ عرض کردیتے ’’سر میری پہلی ترجیح آئی جی پنجاب بننے کے بعد یہ ہوگی میں پنجاب میں نون لیگ کو مزید مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کروں، آپ کا ہرجائز ناجائز حکم بجالائوں گا، اور میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہوگی لوگ مجھے آئی جی پنجاب کے بجائے آئی جی نون لیگ کہیں‘‘… ایسی صورت میں اُسی روز اُن کی بطور آئی جی پی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوجاتا۔ …شہباز شریف ذاتی طورپر اُنہیں پسند کرتے تھے، اُنہوں نے اُن سے کہا ’’ میں تو آپ کو آئی جی پنجاب لگانا چاہتا تھا چودھری نثارعلی خان نے نہیں لگنے دیا ‘‘… جبکہ چودھری نثار علی خان شادی کی ایک تقریب میں ناصر درانی سے ملے، اُن سے کہنے لگے ’’شہباز شریف نے مجھ سے پوچھا تھا ناصر درانی کے آئی جی پنجاب بننے پر آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا؟ میں نے کہا مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟‘‘۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے جب ہمارے کچھ افسران سیاسی و اصلی حکمرانوں کے ہر غلط حکم کی فوری تعمیل کردیتے ہیں تو حکمرانوں کو اُس فوری تعمیل کا ایسا ’’ چسکا‘‘ پڑ جاتا ہے، تعمیل نہ ہونا تو دورکی بات ہے تعمیل میں تھوڑی دیری کو بھی وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں، اگر ہمارے افسران تبادلوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر کام کریں، اپنے عہدے کی گریس کسی صورت میں متاثر نہ ہونے دیں، پھر انتظامی طورپر ایسی ایک صبح ہوگی جس کی کوئی شام شاید نہ ہو، فی الحال ایک طویل شب ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اس شب میں ایک ’’جگنو‘‘ ابھی چمکا تو ہے جس کا نام رائو سردار علی خان ہے، اُن کی شہرت انتہائی ایماندار، اورکسی قسم کا دبائو قبول نہ کرنے والے پولیس افسر کی ہے، ابتداء میں یہی شہرت ڈاکٹر شعیب دستگیر کی بھی تھی جو برقرار نہ رہ سکی، اُمید ہے رائو سردار علی اپنی عمومی شہرت کو داغدار نہیں ہونے دیں گے، عہدے آئے جاتے رہتے ہیں۔ حقیقی طورپر عزت دار کوئی شخص یہ برداشت نہیں کرسکتا اُس کی عزت چلی جائے۔ ایسے لوگ اس معاشرے میں اب رہ کتنے گئے ہیں ؟۔ سو جو رہ گئے ہیں اُنہیں رہنا چاہیے، ہرطرف ’’مکھیوں‘‘ اور ’’مچھروں‘‘ کا راج ہے، ’’جگنو‘‘ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ کچھ ہم بھی ’’اندھے‘‘ ہوگئے ہیں، ویسے ایک صاف ستھرے کردار کے حامل پولیس افسر کو آئی جی پنجاب لگاکر اب حکمرانوں نے اپنی اُس نااہلی کو تھوڑا کم کرنے کی کوشش کی ہے جو آئے روز افسران کو تبدیل کرنے کے حوالے سے اُن کی عالمی شناخت ہے۔ میں حیران ہوں آگے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات آنے والے ہیں ، حکمرانوں کا عرصہ اقتدار بھی تھوڑا رہ گیا ہے ایسے پولیس افسر کو کیسے آئی جی پنجاب لگا دیا گیا جس کی عمومی شہرت یہ ہے وہ کوئی غلط کام نہیں کرتا؟ اِس وقت تو حکمرانوں کو پولیس کے لیے ایک ’’روبوٹ‘‘ کی ضرورت تھی یا ایسے ’’کُھسرے افسر‘‘ کی جو اُن کے اشاروں پر ناچتا رہتا، … ممکن ہے وزیراعظم عمران خان نے یہ فیصلہ ذاتی وسیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر کیا ہو۔ دیکھنا یہ ہے اس فیصلے پر اب قائم کب تک وہ رہتے ہیں؟، ہماری دعا ہے رائو سردار علی خان کے ساتھ وہ سلُوک نہ ہو جو محمد طاہر سے ہوا تھا یا جو ناصردرانی کو پنجاب میں پولیس اصلاحات کا مشیر بناکر اُن سے ہوا تھا …