جناحؒ کی وصیت اور اُن کا مائنڈ سیٹ

جناحؒ کی وصیت اور اُن کا مائنڈ سیٹ

ہسٹری میں جگہ پانے والی کسی بھی مشہور شخصیت کی وصیت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اُس تحریر سے شخصیت کے مائنڈ سیٹ اور مزاج کا پتا چلتا ہے۔ قائداعظمؒ کی وصیت کو پڑھیں تو ہمیں ان کے ذہنی رجحانات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ آئیے پہلے قائداعظمؒ محمد علی جناح کی وصیت کے اہم نکات دیکھتے ہیں پھر ان سے اپنے لیے سبق اخذ کرتے ہیں۔ قائداعظم کی وصیت انگریزی میں تھی جس کا ترجمہ پیش ہے۔ ”سیف گارڈ جناح ہاؤس، لِٹل گِبز روڈ، مالابار ہل، بمبئی، 30مئی 1939ء۔.1یہ میری آخری وصیت ہے۔ اِس سے قبل میری جتنی وصیتیں موجود ہیں انہیں منسوخ تصور کیا جائے۔.2میں اپنی بہن فاطمہ جناح، بمبئی کے وکیل محمد آلی چیولہ اور دہلی کے نوابزادہ لیاقت علی خان کو اپنی وصیت پر عمل درآمد کرانے کا ذمہ دار مقرر کرتا ہوں اور یہی میرے ٹرسٹیز بھی ہوں گے۔.3تمام حصص، سٹاکس اور سیکورٹیز اور کرنٹ اکاؤنٹس جوکہ اِس وقت میری بہن فاطمہ جناح کے نام ہیں، مکمل طور پر انہی کی ملکیت رہیں گے۔ میں نے یہ سب کچھ اپنی زندگی میں انہیں (اپنی بہن فاطمہ جناح کو) تحفے میں دے دیا ہے اور میں پھر اِسی کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ (میری بہن فاطمہ جناح) اِسے اپنی خوشی سے ویسے ہی کسی بھی طریقے سے استعمال کرسکتی ہیں جیسے یہ مکمل طور پر اُن کی اپنی ہی جائیداد ہو۔.4میں ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ، مالابار ہِل، بمبئی پر واقع اپنا گھر، وہ تمام جگہ جو اُس کے ساتھ ملحق ہے، گھر کے ساتھ بنے ہوئے باہر کے کمرے، تمام فرنیچر، چاندی کے برتن اور وہاں کھڑی موٹر کاریں اب انہیں (میری بہن فاطمہ جناح کو) مکمل طور پر دیتا ہوں اور وہ (میری بہن فاطمہ جناح) اِسے اپنی خوشی سے جیسے چاہیں اپنی وصیت میں، کسی معاہدے میں یا کسی اور طرح سے مکمل طور پر استعمال کرسکتی ہیں۔.5میں اپنی اِس وصیت پر عمل درآمد کرانے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میری بہن فاطمہ جناح کو پوری زندگی ضروری اخراجات اور ضروریات کے لئے دوہزار روپے ماہانہ دیتے رہیں۔.6میں اپنی اِس وصیت پر عمل درآمد کرانے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میری بہن رحمت قاسم بھوئے جمال کو پوری زندگی سو روپے ماہانہ دیتے رہیں۔.7میں اپنی اِس وصیت پر عمل درآمد کرانے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میری بہن مریم ابدیند بھوئے پیربھوئے کو پوری زندگی سو روپے ماہانہ دیتے رہیں۔.8میں اپنی اِس وصیت پر عمل درآمد کرانے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میری بہن شیریں کو پوری زندگی سو روپے ماہانہ دیتے رہیں۔.9میں اپنی اِس وصیت پر عمل درآمد کرانے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میرے بھائی احمد کو پوری زندگی سو روپے ماہانہ دیتے رہیں۔.10میں اپنی اِس وصیت پر عمل درآمد کرانے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ دو لاکھ روپے کو الگ کرلیں جو 6فیصد آمدنی کا باعث ہوگا۔ اُس میں سے ہرماہ ایک ہزار روپے میری بیٹی کو پوری زندگی دیتے رہیں اور اُس کی موت کے بعد دو لاکھ روپے اور باقی اضافی رقم جو بچ جائے وہ سب اُس کی اولاد لڑکوں اور لڑکیوں میں برابر تقسیم کردی جائے۔.11میں اپنی اِس وصیت پر عمل درآمد کرانے والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ درج ذیل اداروں کو مختص کردہ رقم تحفے کے طور پر دے دیں۔ (A)میں 25ہزار روپے انجمنِ اسلام سکول، بمبئی کو دیتا ہوں جو ہارن بے روڈ، بالمقابل بوری بندر سٹیشن اور ٹائمز آف انڈیا کی بلڈنگ سے آگے واقع ہے۔ (B)میں بمبئی یونیورسٹی کو 50ہزار روپے دیتا ہوں۔ (C)میں دہلی کے عربی کالج کو 25ہزار روپے دیتا ہوں۔.12جو کچھ اوپر بتایا گیا اُس کے بعد میری بقیہ تمام جائیداد اور رقوم جوکہ مالی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد بچ جائے، کو تین حصوں میں برابر تقسیم کر دیا جائے۔ اُس کا ایک حصہ علی گڑھ یونیورسٹی، ایک حصہ اسلامیہ کالج پشاور اور ایک حصہ کراچی کے سندھ مدرسہ کو دیتا ہوں۔ دستخط ایم اے جناح۔ دستخط تصدیق کنندگان“۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح نے اپنی جو وصیت لکھی اُس کے دو نمایاں رجحانات تھے۔ قائداعظمؒ نے اپنی جائیداد تقسیم کرتے ہوئے بھائی اور بہن کی وراثت میں فرق نہیں رکھا۔ یعنی انہوں نے مرد اور عورت کو اپنی جائیداد کے حصوں کا یکساں حقدار سمجھا۔ بیشک انہوں نے اپنی ایک بہن فاطمہ جناح کو دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت اپنی جائیداد سے کچھ زیادہ حصہ دیا لیکن دوسرے بہن بھائیوں سے یہ حصہ زیادہ ہونے کی وجہ مرد یا عورت کی تفریق نہیں بلکہ دوسری وجوہات تھیں۔ لہٰذا باقی تین بہنوں اور ایک بھائی کو ایک جیسی رقم دینے سے پورا پتا چل جاتا ہے کہ قائداعظمؒ سوسائٹی میں مرد اور عورت کو وراثت میں برابر کا حصے دار سمجھتے تھے۔ اِس کا ایک اور ثبوت قائداعظمؒ نے اپنی بیٹی کی اولاد میں اپنی جائیداد تقسیم کرنے کا فارمولہ بتاتے ہوئے بھی دیا ہے جس کی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے۔ یعنی اُن کی بیٹی کی وفات کی صورت میں قائداعظمؒ کی جائیداد میں اُن کی بیٹی کا حصہ بیٹی کے لڑکوں اور لڑکیوں میں برابر تقسیم کردیا جائے۔ قائداعظمؒ نے اپنی جائیداد میں سے جس دوسرے گروپ کو حصہ دیا وہ تعلیمی ادارے تھے۔ انہوں نے 6تعلیمی اداروں کے لئے اپنی جائیداد سے رقم مختص کی جس میں پانچ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے تھے جبکہ ایک مشترکہ یونیورسٹی تھی۔ اِس وقت اِن میں سے دو ادارے اسلامیہ کالج پشاور اور سندھ مدرستہ الاسلام کراچی پاکستان کی سرزمین پر واقع ہیں۔ قائداعظمؒ کی مندرجہ بالا وصیت پڑھنے سے خیال آتا ہے کہ ہم قائداعظمؒ کے بتائے ہوئے کس کس سبق کو فراموش کرتے جائیں گے؟ 

مصنف کے بارے میں