افغان باشندوں کا پاکستانیوں پر تشدد

افغان باشندوں کا پاکستانیوں پر تشدد

شارجہ میچ ہارنے کے ردِعمل میں افغان باشندوں کا پاکستانیوں پر تشدد ایسا فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ لُٹے پُٹے افغانوں کے لیے پاکستان ایک ایسی جائے پناہ ہے جہاں بلاتفریق سب کو گلے لگایا جاتا ہے روس کے کابل پر حملے سے جب پوری دنیا میں سراسیمگی کی لہر پھیل گئی تو پاکستان واحد ملک ہے جس نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغان بھائیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیااور نہ صرف افغان مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں بلکہ عملی طور پر جانی مالی قربانیاں بھی دیں حا لانکہ اِن قربانیوں کے عوض پاکستان کو منشیات اور کلاشنکوف کلچر ملا یا پھر طول وعرض میں دھماکوں کے لامتناہی سلسلے کا سامنا کرنا پڑا مگر تمام تر نقصانات کے باوجود پاکستانی حکومت اور عوام ثابت قدم رہے اور افغان بھائیوں کو آزادی دلانے کے جذبے میں کمی نہ آئی یہ ایسا وقت تھاجب بھارت بھی افغانستان پر روسی قبضے کی حمایت میں پیش پیش اور اُس کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف رہا نیٹو حملے کو روکنے کے لیے پاکستان کی مخلصانہ سفارتکاری سے دنیا آشنا ہے امریکی حملے کے باوجود پاکستان نے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے افغان بھائیوں کی مشکلات کم کرنے کی ہرممکن کوششیں کی جس کی وجہ سے امریکی اکثر بدظن اور شاکی رہے مگر پاکستان بساط بھر افغانوں کی خیر خواہی میں ثابت قدم رہا امریکہ اور طالبان معاہدہ کرانے میں بھی پاکستان کا کلیدی کردار ہے حالانکہ بھارت نے پوری کوشش کی کہ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے نہ جائیں تاکہ وہ اِس ملک کو اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا رہے آجکل طالبان حکومت کو عالمی تنہائی سے نکالنے میں پاکستان پیش پیش ہے مگر افغانوں کی طرف سے مسلسل ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ پاکستان سے پرخاش رکھتے اور بھارت کواپنا محسن تصور کرتے ہیں یہ سراسر حماقت اور بدترین احسان فراموشی ہے اگر بھارت نے طویل عرصہ کی سرمایہ کاری سے اپنی جڑیں بنالی ہیں تو بھی افغان حکومت کافرض ہے کہ وہ اغیار کے آلہ کاروں کو آہنی ہاتھوں سے قابوکرے تاکہ دوبرادر اسلامی ممالک میں اعتماد کا رشتہ کمزور نہ ہو۔
روسی اور امریکی حملے کے دوران کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنی عوام کو کچلنے میں بڑھ چڑھ کر حملہ آور افواج کا ساتھ دیا اور ہر دفعہ بیرونی حملہ آورا فواج کی پشت پناہی کرنے والے بھارت کی طرف دستِ تعاون بڑھایا اِن کٹھ پتلی حکومتوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کبھی سرحدی مسائل کو ہوادی اور کبھی پاکستان کے مٹھی بھر شرپسندوں کو گلے لگا کر اپنے محسن ملک میں انتشار و افراتفری پھیلانے کی کوشش کی حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے سیاہ کردار کے مالک حکمرانوں نے منظور پشتین جیسے غداروں اور چند بلوچ شرپسندوں کی نہ صرف مالی مدد کی بلکہ نفرت پھیلانے کے لیے ذرائع ابلاغ میں من گھڑت کہانیاں پھیلائیں یہ کٹھ پتلی حکمران اغیارکے کارندے بن کر بھارتی ہتھیار باغیوں تک پہنچانے میں بھی ملوث رہے اِتنے زخم سہنے اور احسان فراموشی کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ صبروتحمل،درگزر اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیااور افغان عوام کا مقدمہ لڑامگر افسوس اِس بات کا ہے کہ تمام تر احسانات کے جواب میں نفرت،کم ظرفی اور اشتعال کا مظاہرہ کیاجاتاہے حالانکہ کسی جانور سے بھی پیار و محبت اور بھلائی کی جائے تو وہ بھی جواب میں نقصان پہنچانے سے گریز کا مظاہرہ کرتاہے لیکن جانے افغان کس مٹی کے بنے ہیں جو وہ پیارومحبت اور بھلائی کی زبان سمجھنے سے انکاری ہیں ۔
وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی یکطرفہ فریفتگی پر نظرثانی کرے اور جسے جو زبان سمجھ آتی ہے اُسے اُسی زبان میں سمجھایا جائے جن احسان فراموشوں کو ایک ہمسایہ اسلامی ملک کھٹکتا اور  بھارت زیادہ پسند ہے تو کچھ عرصہ کے لیے اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے بھارت تو کسی پر احسان کرنے کا عادی ہی نہیں بلکہ خون چوسنے والی ایسی جونک ہے جس کے ساتھ ہوتی ہے اُسے ہی کمزور کرتی ہے آج نہیں تو کل افغانوں کو بھی اِس حقیقت کا پتہ چل جائے گا بنگلہ دیش کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر دیکھ کر آجکل بھارت اُس پر فریفتہ ہے اور نہ صرف تجارت بڑھا کر ڈالر لوٹ رہا ہے بلکہ وقفے وقفے سے دفاع مضبوط بنانے کے نام 
پر ناکارہ اسلحہ و گولہ بارود بیچ کربھی دولت بٹوررہا ہے حالانکہ بنگلہ دیش کے تین اطراف بھارت جبکہ ایک طرف سمندر ہے اُسے کسی طرف سے حملے کا خطرہ نہیں لیکن بھارت نے حال ہی میں پانچ سو ملین کا دفاعی سازوسامان دے کرممنونِ احسان کیا ہے اب سوال یہ ہے کہ جب بنگلہ دیش کو کسی طرف سے خطرہ ہی نہیں تو اُسے فوجی سامان بیچنے کی کوئی وجہ ہے؟ صاف ظاہر ہے نہیں اسی لیے تجزیہ کار اِس سازوسامان کو محض گودام بھرنے اور ڈالر ہتھیانے کی چال قرار دیتے ہیں ایسی ہی چالوں کی وجہ سے بنگلہ دیش کو عالمی اِداروں سے قرض حاصل کرنے کی مجبوری نے آدبوچاہے افغانوں کو جتنی جلد یہ بات سمجھ آجائے بہتر ہے کیونکہ افغانوں سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھانے کے پسِ پردہ بھی اخلاص نہیں بلکہ پاکستان دشمنی اور اُن کی معدنیات پر ہاتھ صاف کرنا ہے۔
پاکستان کی دریا دلی سے بنگلہ دیش اورافغانستان کی کرکٹ ٹیمیں اپنے پیروں پر کھڑی ہوئیں اور عالمی کرکٹ کے مقابلوں میں شرکت کے قابل بھی، لیکن مذکورہ دونوں ممالک نے پاکستان کے بے لوث اخلاص کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا بلکہ مکار اور چالباز بھارت کا آلہ کار بننے کو ترجیح دی یہ طرزِ عمل محسن کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے پاکستان حکومت کو چاہیے کہ میچ کے اختتام پر افغان تماشائیوں کے طرزِ عمل پر صدائے احتجاج بلند کرے اور عالمی مقابلوں میں ایسی شدت پسندی کا مظاہرہ کرنے والوں کوروکنے کے لیے تادیبی قوانین بنوانے کی تجاویز دے تاکہ ایسی کسی حرکت کے مرتکب ذمہ داران کو قرارواقعی سزا ملے نیزا خلاص کے جواب میں باربار اہانت آمیز رویہ اختیارکرنیوالوں پرمزید احسانات کی روش چھوڑکر اُنھیں تنہا چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔
دبئی پولیس نے توڑپھوڑ کے الزام میں کئی افغانوں کو حراست میں لیکر کارروائی کا آغاز کر تے ہوئے گرفتار افراد کو سزائیں سنانے اور ملک بدر کرنے کا عندیہ دیا ہے قرار واقعی سزادینے سے ہی آئندہ مزید ایسے واقعات کوروکا جا سکتاہے پاکستان کو افغان حکومت کے ساتھ یہ مسئلہ اُٹھانے کے ساتھ دبئی پولیس کو حقائق کی کھوج میں اعانت کرنی چاہیے گرفتار افغانیوں کے پاس پاسپورٹ و دیگر دستاویزات پاکستانی ہیں ایسے تمام غیر ملکی بشمول افغان،جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہیں فی الفور منسوخ کرنانہایت ضروری ہے افغان ٹیم کی شکست پر اسلام آباد اور پشاور میں پاک پرچم کی بے حرمتی کے واقعات ہوئے اِن واقعات کے ذمہ داران کسی معافی کے مستحق نہیں اِنھیں ملک سے نکالنے کے ساتھ ایسا انتظام کیا جائے کہ یہ شرپسند دوبارہ نہ آ سکیں ایک بار قومی پرچم کی بے حرمتی کرنے والوں کو ملک بدر کردیا گیا تو اُمیدِ واثق ہے کہ دوبارہ ایسی گری ہوئی حرکت کی کسی کو جرأت نہیں ہو گی قومی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے افغان مہاجرین کی جانب سے قومی پرچم کی بے حرمتی سنگین جرم ہے اب یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ سختی سے افغانوں کے کیمپ اُکھاڑ کر راستے واگزار کرائے کیونکہ حساس اور اہم ترین علاقوں میں افغان مہاجرین کارہائش پذیر ہونا سراسر سکیورٹی رسک ہے۔
افغان ہمارے اسلامی بھائی تبھی ہیں جب وہ ہمارے جذبات کا بھی کچھ خیال رکھیں اگر مہمان اپنے میزبان کو ہرجگہ بے عزت کرتارہے تو اخلاقیات کے مظاہرے کی ضرورت نہیں رہتی سعودیہ کی طرح پاکستان بھی اقامہ طرزکا طریقہ کار اپنا کر مستقبل میں افغانوں کو شر انگیزیوں سے روک سکتا ہے اگر چاروں صوبوں میں افغانیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے کفیل کو نہ صرف جواب دہ ہوں بلکہ کفیل کے پاس ملک بدر ی کی سفارش کا بھی اختیار ہو علاوہ ازیں ہر برس اقاموں کی تجدید کی باقاعدہ فیس وصول کی جائے مجھے یقین ہے کسی کو قومی پرچم کی بے حرمتی کی پھرہمت نہیں ہو گی جو مہمان اپنے میزبان کی عزت نہ کرے وہ کسی ہمدردی یا رحم دلی کا مستحق نہیں۔

مصنف کے بارے میں