نئی حکومت کی ترجیحات اورمعاشی و سفارتی چیلنجز!

نئی حکومت کی ترجیحات اورمعاشی و سفارتی چیلنجز!

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف قومی اسمبلی سے 174 ووٹ لے کر 23ویں وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے ہیں جبکہ تحریکِ انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہباز شریف وزیراعظم پاکستان تو بن گئے لیکن موجود صورتحال میں یہ منصب انکے لیے کسی طور بھی آسان نہیں ہو گا۔ عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں بظاہر تو تمام تر توجہ عوامی مسائل حل کرنے پر مرکوز رکھنے کی باتیں کرتی نظرآرہی ہیں لیکن یہ وقت ہی بتائے گا کہ ایک دوسرے سے بالکل الگ نظریات اور مسائل رکھنے والی جماعتوں کا اتحاد کس قدر دیرپا اور پائیدار ہے۔ شہبازشریف حکومت کو سب سے بڑا چیلنج معاشی ہو گا،اس میں پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ کیا جانے والے معاہدے کو ہینڈل کرنا سرفہرست ہو گا، کیونکہ مسلم لیگ ن بارہا کہہ چکی ہے کہ ہماری حکومت آئی تو سب سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو ختم کریں گے کیونکہ اس معاہدے کے ذریعے پاکستان کی معاشی خود مختاری آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے۔ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کو کنٹرول کرنے کے ساتھ نوکریوں کیلئے مواقع پیدا کرنا،صنعتوں کو بجلی و گیس کی فراہمی اور ٹیکس ریفارمز بھی چیلنج سے کم نہ ہو گا۔شہباز شریف حکومت کے پاس تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ موجود ہے اور اس دوران حکومت نے وفاقی بجٹ پیش کرنا ہے، نگران سیٹ اپ سے پہلے ایک بہترین عوام دوست بجٹ پیش کرنا شہباز شریف حکومت کیلیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
نئی مخلوط حکومت کیلئے الیکشن اصلاحات بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف امریکا کی مدد سے انکی حکومت گرانے اور امپورٹڈ حکومت مسلط کرانے کا الزام لگا رہے ہیں۔اگر پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلیوں کے استعفے منظور ہوجاتے ہیں تو الیکشن کمیشن بڑی سطح پر فوری ضمنی انتخابات نہیں کرواسکتاہے کیونکہ ملک میں صرف حلقہ بندیوں کیلیے 3 سے 5ماہ کا وقت درکار ہے جسکے بعد الیکشن کی تیاری ممکن ہے۔ شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم منتخب کرانے والوں میں بلوچستان کے 10ممبران قومی اسمبلی شامل ہیں جو کسی بھی وقت حکومت کا تختہ الٹنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے بڑے مسائل میں لاپتہ افراد، سی پیک اور گوادر پورٹ جیسے میگا منصوبوں میں مقامی افراد کو نوکریوں کی فراہمی اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل ہے۔ حکومتی اتحاد میں خیبر پختونخوا سے محسن داوڑ اور علی وزیر بھی شامل ہیں جنکاریاستی اداروں کے حوالے سے ایک مخصوص مؤقف ہے، جبکہ خیبر پختونخوا میں افغان مہاجرین کو درپیش مسائل کا حل بھی نئی حکومت کے چیلنجز میں شامل ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حکومت کو گرانے کیلئے امریکی سازش الزامات کے تناظر میں نئی حکومت کیلئے امریکا اور بھارت کیساتھ تعلقات دوبارہ بحال کرنا اورافغانستان کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینے کا چیلنج بھی درپیش ہو گا جبکہ چین اور روس کے ساتھ تعلقات بھی اہم ہیں۔ سفارتی سطح پرچین ہویاامریکا، پاکستان کواپنے مفادات پر بات کرنی چاہیے اور انھیں مدنظر رکھتے ہوئے بہتر تعلقات کو فروغ دیا جائے۔
ہم حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ نئی حکومت کیلیے معیشت کو درپیش چیلنجز اپنی جگہ باقی رہیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں پاکستان کی معیشت ہر لحاظ سے مزید خراب ہوئی ہے جو 2018 میں مسلم لیگ ن حکومت سے خراب حالت  میں وراثت میں ملی تھی۔ مالیاتی اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک بار پھر آسمان کوچھو رہے ہیں،قلیل مدتی بنیادوں پر ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہو گاجس سے حکومت کو مقبول اقدامات ترک کرنا ہونگے، لہٰذاعمران خان حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف اقدامات کو پلٹنا ہوگا۔حکومت کو زمینی حقائق کے مطابق متوازن بجٹ پیش کرنا ہوگاکیونکہ وہ مہنگائی مکاؤ مارچ کرکے اقتدار میں آئے تھے، لیکن قلیل مدتی بنیادوں پر ادائیگی کے توازن کا بحران بھی سنگین ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 21ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 35ارب ڈالرز کو چھو رہا ہے جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بنانے کی ضرورت ہے جو 11.3 ارب ڈالرز کی کم ترین سطح پر آچکے ہیں۔ بجٹ 2023 کو مالیاتی خسارے کو سنبھالنے کی ضرورت ہے جسکا اثر بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ پر ہے۔تمام مالیاتی اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ کو حتمی شکل دی جانی چاہیے کیونکہ موجودہ اخراجات بڑھ کر 7.5 ٹریلین روپے ہو گئے ہیں۔ فنڈز کے چینی رول اوور کو آگے بڑھانا چاہیے اورحکومت کو دوطرفہ اورکثیرجہتی شراکت داروں کے ساتھ بڑھتے ہوئے فنڈنگ کیلئے فعال طور پرمشغول ہونا چاہیے۔سعودی عرب سے موخرتیل کی سہولت کومکمل طور پراستعمال کیا جانا چاہئے اور پروجیکٹ کی مالی اعانت کو تیزی سے ٹریک کیا جانا چاہئے۔بڑھتی ہوئی پنشن اوربڑھتامارک اپ ادائیگی اصلاحات کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف کوانکم ٹیکس کے نظام کیلئے ریونیو اصلاحات اور مراعات کو ختم کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے۔ بجٹ2023کو ملک میں ایک ترقی پسند اور سادہ ٹیکسیشن سسٹم کی طرف پیش قدمی دکھانا چاہیے۔ عوام کو ریلیف دینے کیلئے حکومت کیلئے مالیاتی سختی سے بڑھ کر مہنگائی پر قابو پانا ایک اہم چیلنج ہے۔ اس سلسلے میں اشیائے خوردونوش کی سپلائی سائیڈ مانیٹرنگ کرنا ضروری ہے۔ توانائی کے شعبے میں حکومت کو سستے ایندھن کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے، اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ روپے کی قدر میں کوئی کمی نہ ہواور مالیاتی توسیع کی شرح کو دوڈیجٹ تک محدود رکھا جائے۔پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر عام سبسڈی کو کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یقیناً ٹارگٹڈ سبسڈی جاری رکھنی چاہیے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی حکومت یہ سبسڈی جاری رکھ پائے گی؟ رواں مالی سال اور اگلے برس پاکستان کو تخمینوں کے مطابق لگ بھگ30 ارب ڈالرز کی رقم واپس کرنی ہے۔ ملک پر ایک سو سولہ بلین ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اورروپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا جبکہ سرمایہ کار حکومت کو خبردار کر رہے تھے کہ شرح سود بڑھانے سے معیشت کا مزید جنازہ نکلے گا، حکومت کو معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے آسان اور جلد قرضوں تک رسائی سبسڈائزڈ ریٹس پر عام انسان اور کاروباری طبقے کو دینا ہوگی، تاکہ معیشت مستحکم اور روزگار کے موقع پیدا ہو سکیں۔ 32ارب ڈالرز سے زیادہ بیرونی فنانسنگ کیلئے بہتر شرائط پر ساتویں جائزے کی کامیاب تکمیل کی اشدضرورت ہے۔حکومت کو دوطرفہ اور کثیرجہتی شراکت کیساتھ بڑھتے ہوئے فنڈنگ کیلئے مشغول ہونا چاہیے۔ معاشی صورتحال پر قابو پانے کے لیے ٹاسک فورس جو کہ بیرون ممالک سے پیسہ لا سکے اور مین پاور پالیسی کی شدید ضرورت ہے جسکے تحت باہْنرلوگ باہر سے زیادہ سے زیادہ پیسہ بھجوا سکیں۔ ان اقدامات کے علاوہ ہمیں اپنی زراعت کو بہتر بنانے کی ازحد ضرورت ہے۔ زراعت کو فروغ دیے بغیر معاشی ترقی کا تصور دھندلا جاتا ہے۔نان ڈیویلپمنٹ منصوبہ کے بجائے ڈیویلپمنٹ منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے اور جی ایس ٹی سے حاصل ہونے والے وسائل کاپچاس فیصد ڈیویلپمنٹ منصوبوں پر خرچ کئے جائیں، اس سے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہونگے، سرمایہ کاری بڑھے گی، زرمبادلہ کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔ پاکستان کو نئے دور میں ایسی اقتصادی ترجیحات کوفروغ دینا ہوگا جس میں گڈگورنس اوراداروں کی کارکردگی بہتر بنانا شامل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ترقیاتی عمل اور نظریات کے متعلق اپنے طرز فکر کو مضبوط کرکے جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو اہمیت دیں۔

مصنف کے بارے میں