تہذیبی جنگ فیصلہ کن دو راہے پر

Amira Ehsan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

 طالبان کی برق رفتارفتوحات نے خبروں کی دنیامیں زلزلہ برپا کررکھا ہے۔اتحادیوں کی دال جوتیوں میں بٹ رہی ہے۔اب تک34  میں سے19 صوبائی دارالحکومت فتح ہو چکے ہیں۔ کابل کا گھیراتنگ ہوچکاہے۔طالبان پیدل، سائیکل، موٹرسائیکل،اور امریکی  ہمویوں میں سوار فتح کے جھنڈے لہراتے دو تہائی افغانستان پر چھا گئے۔امریکہ شدید سیاسی اختلافات وانتشار سے دو چار ہے۔ اس ذلت آمیزشکست کوہضم نہیں کر پا رہے۔ کابل حکومت سراسیمہ ہوئی بیٹھی ہے، وزراء فرار ہو رہے ہیں۔ باہم پھوٹ، الزام تراشی، اختلاف کا شکار۔
دوسری طرف اس فضا میں افغان ارکان اسمبلی نے اشرف غنی پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ یہ تو شاہ محمود قریشی نے بھی توجہ دلائی تھی کہ دنیا دیکھے سوچے کہ اتنا بے پناہ پیسہ افغانستان میں بہایا گیا، وہ کہاں گیا؟ افغان حکومت اور فوج کی ملک بھر میں بدعنوانی اور بدنظمی نے عوام کو بیزار اور مایوس کر رکھا ہے۔ یہ بھی طالبان کی فتوحات میں مدد دینے والا عنصر ہے۔ تمامتر حکومتی اور امریکی پراپیگنڈے کے باوجود بلخ کے تعلیمی افسران نے مزارشریف کے اضلاع میں پجواک افغان نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ جہاں طالبان کا کنٹرول ہوگیا ہے وہاں بھی تمام اسکول کھلے ہیں، امتحانات جاری ہیں۔ طالبان کا تعلیمی کمیشن ان علاقوں میں کام کررہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ لڑکیاں اسلامی حجاب کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ اس اثناء طالبان کی تیزرفتار پیش قدمی کے ہنگامے پر سلامتی کونسل کو ہنگامی اجلاس بلانا پڑا۔ اب واویلا یہ تھا کہ ’انسانی المیے سے بچنے کے لیے عالمی برادری آگے بڑھے۔‘ ’صورت حال کا کوئی فوجی حل نہیں، افغان جنگ تباہ کن مرحلے میں پہنچ گئی ہے۔‘ ملاحظہ ہو دوغلاپن۔ 2001ء میں انسانی المیہ برپا نہ ہوا جب جنگوں کے مارے افغانستان پر تاریخ کی مہلک ترین، طویل ترین جنگ مسلط کرنے کو عالمی برادری فوجوں کی بارات لے کر اتری تھی! اس وقت فوجی حل مسلط کیا گیا تھا۔ 20 سال مسلسل تباہ کن ترین ہتھیاروں کو آزمایا گیا تو وہ مراحل تباہ کن نہ تھے! امریکی ترجمان نے بھی اب سٹپٹا کر کہا: ’اگر بزور طاقت کابل پر قبضہ کیا/ حکومت حاصل کی تو دنیا قبول نہیں کرے گی۔‘ حالانکہ آپ جنگی طاقت کے بل پر داخل ہوئے تھے اور طالبان کی جائز قانونی مقبول حکومت کو بے دخل کیا تھا۔ وہ اب اسی دروازے سے واپس آرہے ہیں تو آپ ’قبول ہے‘ کہنے پر راضی نہیں؟ 2 کھرب ڈالر اور لاکھوں انسانی جانوں کے اتلاف پر، ملکِ افغانان کی تباہی اور کھنڈرات پر گنجی، کانی، لولی لنگڑی دو  سروں والی جمہوریت آپ لائے۔ عبد اللہ عبد اللہ اور اشرف غنی شریک جمہوریت ٹھہرے۔ ان 20 سالوں میں امریکی سپرپاوری کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ روس کو سنبھلنے اور چین کو سپرپاوری میں معاشی قوت بن کھڑے ہونے کا موقع مل گیا!
طالبان قوت بن کر ابھرے، پھیلے ہوئے ہیں تو 
اقوام متحدہ کے پیروں تلے سے بھی زمین نکلی جا رہی ہے۔ بوکھلاہٹ میں بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی۔ یہ راز افغانستان پر حملہ آور تمام افواج،ان کے پشت پناہ مسلم ممالک، سیکولر دنیا میں مشترک ہے۔ اور وہ یو این کا یہ کہنا ہے کہ: ’اسلامی نظام قبول نہیں کریں گے۔‘ مگر کیوں نہیں کریں گے؟ جہاں جہاں طالبان نے قدم رکھا ہے وہاں امن قائم ہوگیا ہے۔ ترجمان سہیل شاہین نے جیسے کہا: غیرجانبدار صحافی اور تعمیراتی کمپنیاں بلاخوف اپنا کام جاری رکھیں۔ سفارت خانوں کو پہلے یقین دہانی کروا چکے۔ یہ بھی کہہ چکے کہ ’اسلام آزادیئ اظہار کی جو اجازت دیتا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ مثلاً: جابر سلطان کے سامنے کلمہئ حق کہنے کی حوصلہ افزائی اور تحسین، یہ سب دی جائے گی۔ عورت کو اس کے حقوق دیے جائیں گے۔‘ جو مغربی حقوق نسواں سے بہت زیادہ ہے۔ مغرب تو عورت بے چاری کو تن ڈھانپنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ یقین نہ آئے تو یورپی ہینڈبال چیمپئین شپ کا حال دیکھیے۔ بلغاریہ میں ناروے کی کھلاڑی عورتوں نے بکنی (Bikini) کی دھجیوں کی جگہ ذرا ادھوری چپہ بھر کی ادھ موئی ٹی شرٹ نما اور شارٹس پہن لیں تو انہیں 1500 یورو جرمانہ ہوگیا ’خود کو ڈھانپنے‘ کے جرم میں۔ انضباطی کمیشن نے اسے ”نامناسب لباس‘ کیس بنا دیا۔ اتنا زیادہ لباس کیوں پہنا؟ خواتین نے احتجاج کیا، برا مانا۔ کہا: بس کردو بس۔ بہت ہوگیا! مگر انتظامیہ کا کہنا تھا کہ کم لباسی سے استعداد بڑھ جاتی ہے اور کھیل پرکشش ہوجاتا ہے، لہٰذا بکنی پہننا لازم ہے! شرمناک! المناک! دنیاکواسلام اس لیے ناقابل قبول ہے کہ عورت برہنگی کے جبر سے آزاد مہذب اور معزز ہوجائے گی۔ فیشن، فلم، اشتہار بازی/ سازی، میک اپ، سبھی صنعتیں ٹھپ ہوجائیں گی۔ نورمقدم پارٹنر شپ ختم ہوگی۔ اربوں کھربوں ڈالر کی سیاست بازی، جمہوریت کی انڈسٹری ٹھپ ہوجائے گی۔ وی آئی پی کلچر کا نام ونشان نہ رہے گا۔ خط غربت سے نیچے عوام کو بٹھاکر داد عیش دیتے حکمرانوں کا ناطقہ بند ہوجائے گا۔
پچھلے دور میں معاشی پابندیوں تلے انہیں جکڑا تھا تو حکمران (طالبان) عوام کے ساتھ خط غربت تلے بیٹھے قہوے سے روٹی کھاتے تھے۔ سفید ہاتھیوں کی حکمرانیاں، جن کے سموں تلے عوام کا جمہوری سرمہ بنتا ہے، ختم ہونے کے اندیشے ہیں۔ شراب، زنا، لوٹ مار، قتل وغارت ختم ہونے میں عوام کا سکھ اور امن ہے۔ اسی لیے وہ ہتھیار ڈال کر صوبہ در صوبہ، ضلع در ضلع طالبان کی حکمرانی قبول کررہے ہیں۔ کیا اسی کا نام جمہوریت نہیں؟ عوام کی پسند کی حکومت، عوام کی فلاح کے لیے! اسلام کی حکمرانی مقتدر طبقے کے لیے بھاری ہوتی ہے اور عوام الناس کے لیے عین راحت، امن اور انصاف لاتی ہے۔ اسی لیے استحصالیوں کے غلام ادارے نے پکار دی کہ ہم یہ قبول نہیں کریں گے۔ اسلامی حکومت انسان کو انسان کی غلامی کے شکنجے سے آزاد کرکے اسے ایک اللہ کی حکمرانی اور صرف اپنے خالق کی عافیت بخش غلامی تلے لاتی ہے۔
 یاد کیجیے امریکا کے جمہوریت کے نام پر ستائے ہوئے عوام کی احتجاجی تحریک، OWS، ’وال اسٹریت پر قبضہ کرو‘۔ جو 2011ء میں امریکی عوام کے معاشی استحصال کے خلاف اٹھی اور دنیا کے کئی ممالک میں پھیل گئی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ 99 فیصد عوام کی کمائی ایک فیصد امریکیوں کے ہاتھ میں مرتکز ہوجاتی ہے۔ اگرچہ ’جمہوریت‘ نے اس تحریک کو دبا لیا، تتربتر کردیا مگر حقیقت آج بھی یہی ہے جس کا مداوا صرف اسلام میں ہے۔ جو امراء کی دولت کو گردش میں لاتا اور محروم طبقات کی طرف اس کا رخ پھیرتا ہے۔ طالبان اس ایک فیصد کے لیے شدید خطرے کی علامت ہیں پوری دنیا میں! چنانچہ امریکا دوحہ معاہدہ بھلاکر انخلاء کے باوجود B-52  طیاروں سے طالبان اور شہریوں پر بمباری کرکے اسے کچل رہا ہے اور پسپائی کا انتقام بھی لے رہا ہے۔ اس پر دوحہ طالبان کے سیاسی دفتر سے ترجمان نعیم وردک نے امریکا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ مداخلت بند کرے۔ اس وقت جاری جنگ مختلف اطراف میں افغان حکومت کے شروع کردہ آپریشنوں پر جوابی کارروائی ہے۔ حکومتی پسپائی پر اب امریکی طیارے جنگ میں کود پڑے ہیں جس کا نوٹس دوحہ دفتر نے لیا ہے۔
ادھر پاکستان میں نورمقدم کیس کی ہولناکی سے نئی نسل کو بچانے کے لیے تھانہ کورال پولیس نے بروقت اقدام کیا۔ نجی سوسائٹی میں چھاپہ مارکر جاری ڈانس پارٹی سے منتظمین، لڑکے لڑکیاں گرفتار کرلیے۔ بھاری مقدار میں شراب اور نشہ آور گولیاں برآمد کرلیں۔ یہ ہے وہ مادرپدرآزادپاکستان بنانے کی تربیت گاہ جہاں پارٹنر شپ سکھائی، پروان چڑھائی جاتی ہے۔ عیاش نوجوانوں کے لیے لڑکیاں فراہم ہوتی ہیں۔ والدین کہاں ہیں؟ یہ ہے وہ طبقہ جس کے تحفظ کے لیے گھریلو تشدد بل پاس کیا جا رہا ہے۔ اس بل کے بعد، روکنے، کنٹرول کرنے، پوچھ گچھ کرنے والے والدین، متشدد (یہ ’دہشت گرد‘ جیسی مغربی اصطلاح ہے۔ حرام کاری سے روکنے والا ’متشدد‘ ہے۔) قرار پائیں گے۔ یہ پارٹی نوجوانوں کا حق ہوگی۔ باپ کو GPS  ٹریکر والا کڑا پہنایا جائے گا۔ یعنی چوڑیاں پہن کر چپکا بیٹھے، غیرت پامال رہے اور دیوث کامل ہو۔ سینیٹ نے کھلی آنکھوں سے یہ بل منظور کیا۔ لڑکیاں نورمقدم، ماڈل نایاب یا خدانخواستہ برطانیہ پلٹ مائزہ بن کر قتل ہوتی رہیں۔ ڈانس پارٹی تصاویر ان کی بھی مذکورہ بالا واقعے کی طرح میسر ہیں۔ فرق صرف ایلیٹ کلاس (یا ڈیلیٹ کلاس کہہ لیجیے) یا نسبتاً نچلے طبقات کا ہے۔ مقصود خاندانی نظام کی تباہی، اقدار، تہذیب کا ملیامیٹ کیا جانا ہے۔ خوفناک واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ 4 لڑکیوں کا اغوا اور اس کی اذیت ناک کہانی کمترین عمر کی لڑکیوں کی۔ FATF  کی گرے/ سفید لسٹ کے ہاتھوں یہ ’فیئراینڈ لولی‘ کہانی چل رہی ہے۔ اپنی تہذیبی کھال نوچ کر گورے کے قدموں میں ڈالنے کو یہ بل پیش فرمایا ہے۔ ساتھ ساتھ آنکھوں میں دھول جھونکنے والے نیک پاک بیانات اور ریاست مدینہ کی مالاجپ لی جاتی ہے۔ قمر تسبیح پڑھتے جا رہے ہیں سوئے میخانہ، والا دھوکا ہے بس!!